Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”ہاں، میری یہی تو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ میرا نام کیوں لے رہے تھے۔ مجھے کیسے اور کس حوالے سے جانتے ہیں۔” اندھیرے میں وہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتی تھیں مگر ان کی آوازیں ان کی کیفیات کو ظاہر کرنے کے لئے کافی تھیں۔
”یہ سب عمر اور عباس کی وجہ سے ہوا… یہ لوگ یقیناً ان چاروں لڑکوں میں سے کسی فیملی کے بھجوائے ہوئے ہیں۔” وہ یک دم مشتعل ہو کر بولی۔ ” نہ وہ ان چاروں کو قتل کرتے نہ یہ لوگ یہاں اس طرح میرے پیچھے آتے۔”
”عمر اور عباس نے تمہیں بچانے کے لئے سب کچھ کیا۔”
”کیا بچایا ہے انہوں نے… جو بات چند گھنٹوں میں ایک ایف آئی آر کے ساتھ ختم ہو سکتی تھی۔ وہ اب مجھے اس طرح اپنی زندگی بچانے کے لئے یہاں چھپنے پر مجبور کر رہی ہے۔ کیا حفاظت کی ہے ان دونوں نے میری۔”
اس کا خوف اب مکمل طور پر اشتعال میں تبدیل ہو گیا تھا۔
”نہ یہ لوگ انہیں قتل کرتے نہ کوئی اس طرح بدلہ لینے کے لئے مجھے ٹریس آؤٹ کرتا… یہ سب ان کی وجہ سے ہوا۔” وہ عباس اور عمر کو مورد الزام ٹھہرا رہی تھی۔
”اوپر سے پولیس گارڈ بھی ہٹا لی۔۔۔” اس نے بے بسی سے بات ادھوری چھوڑ دی۔ ”انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ یہ آخر مجھے کب تک اور کہاں تک تحفظ دے سکتے ہیں، مجھے ان ہی چیزوں سے خوف آتا ہے جو اب بھوت بن کر میرے سامنے کھڑی ہیں۔”
”وہ دونوں تمہارے دشمن نہیں ہیں۔” نانو نے ان دونوں کے دفاع کی کوشش کی۔
”دشمن نہیں تو وہ میرے دوست بھی ثابت نہیں ہوئے۔”
اس نے درشتی سے کہا۔ نانو کی طرف سے ان دونوں کے لئے حمائیت اس وقت اسے بری طرح مشتعل کر رہی تھی۔
”پتا نہیں انہوں نے چوکیدار اور مرید بابا کے ساتھ کیا کیا ہے؟” اسے بات کرتے کرتے اچانک ان دونوں کا خیال آیا۔



”پولیس کو اب تک آجانا چاہئے تھا… آخر اتنی فائرنگ ہوئی ہے اس علاقے میں اور پھر ساتھ والے سارے گھروں نے بھی پولیس کو رنگ کیا ہو گا… پھر بھی پتا نہیں ابھی تک پولیس کیوں نہیں آرہی۔” نانو کو اچانک ایک دوسری تشویش ستانے لگی۔
”اگر پولیس نہ آئی تو؟”
”تو…تو… پتا نہیں کیا ہو گا؟” نانو کے سوال نے اس کے خوف کو پھر بیدار کر دیا۔
”آخر ہم یہاں کب تک بیٹھے رہیں گے؟” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد نانو نے کہا۔
”ہم باہر کیسے نکل سکتے ہیں… اگر وہ لوگ وہاں ہوئے تو…؟”
وہ ہمیں پورے گھر میں ڈھونڈ رہے ہوں گے اگر ہم انہیں وہاں نہ ملے تو۔۔۔” علیزہ بات کرتے کرتے خاموش ہو گئی۔
”تو وہ پھر شاید یہی سوچیں گے کہ ہم کسی بیسمنٹ میں ہیں… اور… اور پھر… وہ لوگ شاید یہاں پہنچ جائیں گے۔”
علیزہ نے اپنے ہاتھ کی مٹھیاں بار بار کھولنی اور بند کرنی شروع کر دیں۔ اس کے ہاتھوں اور پیروں کی لرزش بڑھتی جا رہی تھی۔
”میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ مجھے زندگی میں ایسی صورت حال کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔” نانو نے اس بار دھیمی آواز میں کہا۔ علیزہ چپ چاپ تاریکی کو گھورتی رہی۔ اس کے کان باہر سے آنے والی کسی بھی آواز پر لگے ہوئے تھے۔
”Its Terrible” (یہ کس قدر ہولناک ہے) اس نے نانو کی بات کا جواب نہیں دیا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چند دن پہلے کے واقعات اتنی جلدی دہرائے جائیں گے اور پہلے سے زیادہ بدتر انداز میں۔
نانو اب خاموش ہو گئی تھیں۔ شاید وہ علیزہ کی کیفیات کو سمجھ رہی تھیں۔



وہ دونوں وہاں کتنی دیر چپ چاپ بیٹھی رہیں، انہیں اندازہ نہیں ہوا مگر یہ ضرور جانتی تھیں کہ انہیں وہاں بیٹھے کئی گھنٹے گزر گئے تھے۔
پھر اچانک انہوں نے تہہ خانے کے دروازے پر کچھ آہٹیں اور آوازیں سنیں۔ علیزہ نے بے اختیار نانو کا ہاتھ پکڑ لیا۔ نانو اس کی ہاتھ کی کپکپاہٹ اور ٹھنڈک کو محسوس کر سکتی تھیں۔
”نانو…!” اس کی آواز بھی اسی طرح لرز رہی تھی۔ وہ کیا کہنا چاہتی تھی، نانو اچھی طرح سمجھ سکتی تھیں۔ تہہ خانے کے دروازے کو اب کوئی کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ دونوں دم سادھے بیٹھی رہیں۔ پھر علیزہ نے ایک بلند آواز سنی۔
”گرینی اندر ہیں آپ؟” وہ عباس تھا۔
”یا اللہ ! ” نانو کے منہ سے نکلا۔ علیزہ کا رکا ہوا سانس دوبارہ چلنے لگا۔
”عباس آگیا ہے… پولیس پہنچ گئی ہو گی۔ آؤ، اب یہاں سے نکلتے ہیں۔” علیزہ نے نانو کو کھڑا ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ بھی ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ نانو نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹارچ جلا دی۔ تہہ خانے کا اندھیرا ایک دم غائب ہو گیا۔
ٹارچ کی روشنی میں چلتے ہوئے وہ دونوں دروازے تک پہنچیں اور انہوں نے دروازہ کھول دیا۔ عباس دروازے کے بالکل سامنے تھا۔ گھر میں اب روشنی تھی، شاید بجلی کی کٹی ہوئی تاریں جوڑ دی گئی تھیں۔
عباس اور علیزہ کے درمیان خاموش نظروں کا تبادلہ ہوا پھر عباس نے نانو کا ہاتھ پکڑ لیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!