Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”آپ ٹھیک ہیں؟”
”ہاں، میں ٹھیک ہوں۔ خدا کا شکر ہے۔ وہ لوگ چلے گئے۔”
”ہاں، پولیس کے آنے سے پہلے ہی چلے گئے۔”
اس نے علیزہ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا تھا۔ یوں جیسے وہ وہاں موجود ہی نہیں تھی۔ وہ وجہ جانتی تھی۔
”کون لوگ تھے وہ؟” عباس اب نانو سے پوچھ رہا تھا۔
نانو نے ایک بار پلٹ کر علیزہ کو دیکھا۔ عباس نے ان کی نظروں کا تعاقب کیا۔ علیزہ کے چہرے کی رنگت کچھ تبدیل ہو گئی ۔ نانو شاید کسی کش مکش کا شکار تھیں۔
”وہ… وہ… اوہ یا اللہ … ان لوگوں نے کیا کیا ہے؟” نانو عباس کی بات کا جواب دیتے ہوئے یک دم اس کمرے کی چیزوں کو دیکھنے لگیں جو ادھر ادھر بکھری ہوئی تھیں۔
”پورے گھر کا یہی حال ہے۔” عباس نے نانو کو اطلاع دی۔ علیزہ باکل شاکڈ تھی۔
”تم کب یہاں آئے؟”
”میں آدھ گھنٹہ پہلے پہنچا ہوں یہاں پر۔”
”مرید اور اصغر کہاں ہیں؟” نانو کو اچانک یاد آیا۔
”اصغر تو زخمی ہے۔ اس کے بازو پر گولی لگی ہے…اور مرید کو باندھ کر انہوں نے کوارٹر میں بند کر دیا تھا۔ پولیس نے آکر اسے وہاں سے نکالا ہے۔” عباس نانو کے ساتھ چلتے ہوئے بتا رہا تھا۔



”یہ لوگ اندر کیسے آگئے؟”
”لاؤنج کے دروازے کا لاک ٹوٹا ہوا تھا۔ وہیں سے آئے تھے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ بیسمنٹ میں چھپ گئیں۔ میں تو یہاں آتے ہی پریشان ہو گیا تھا، پہلے تو مجھے یہی خیال آیا کہ شاید وہ لوگ آپ کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ کیونکہ گھر میں کوئی نہیں تھا، مگر پھر مجھے بیسمنٹ کا خیال آیا اور میں نے اسے چیک کرنا ضروری سمجھا۔” وہ اب بھی علیزہ کو مکمل طورپر نظر انداز کئے ہوئے تھے۔
وہ لوگ اب لاؤنج میں داخل ہو گئے تھے۔ گھر میں جگہ جگہ پولیس والے فنگر پرنٹس لے رہے تھے۔
”فون اور بجلی کی تاریں کٹی ہوئی تھیں جب میں یہاں آیا سب سے پہلے تو میں نے انہیں ہی ٹھیک کروایا۔ وہ کون لوگ تھے گرینی…! کیا آپ کو کچھ اندازہ ہے؟” عبا س نے بات کرتے کرتے ایک بار پھر پوچھا۔
نانو نے ایک بار پھر علیزہ کو دیکھا ”پتا نہیں” ان کی آواز مدہم تھی۔
عباس نے بھی علیزہ کو دیکھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بہت عجیب تھے۔ اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد وہ پھر سے نانو کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”دو گاڑیوں میں آئے تھے وہ لوگ… آٹھ دس تو ضرور ہوں گے۔ تین چار کو تو اصغرنے بھی دیکھا تھا۔ باؤنڈری والاگیٹ تو انہوں نے فائرنگ سے مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔”
وہ لاؤنج میں کھڑا نانو کو بتاتا رہا۔ علیزہ اس کے چہرے پر نظر ڈالے بغیر اس کی بات سنتی رہی۔
”پولیس ابھی تک باہر سے گولیاں اکٹھی کر رہی ہے۔”
”یہ سب عمر کی وجہ سے ہوا۔ وہ پولیس گارڈ نہ ہٹاتا تو یہ سب نہ ہوتا۔”
علیزہ نے پہلی بار گفتگو میں مداخلت کی۔ اس کی آواز میں اشتعال تھا۔ عباس نے بہت سرد نظروں سے اسے دیکھا۔
”عمر نے آخر پولیس گارڈ کیوں اس طرح اچانک ہٹائی…؟ اسے احساس ہونا چاہئے تھا۔” نانو نے بھی کچھ برہم ہوتے ہوئے کہا۔
عباس نے یک دم ان کی بات کاٹ دی۔
”اس سے پوچھیں کہ عمر نے پولیس گارڈ کیوں ہٹا دی۔” اس نے علیزہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ علیزہ ساکت ہو گئی۔
”علیزہ سے؟” نانو نے حیران ہو کر کہا ”علیزہ کا اس سے کیا تعلق ہے… پولیس گارڈ تو عمر نے ہٹائی ہے۔”
”عمر آرہا ہے… چند منٹوں تک یہیں ہو گا، اس سے پوچھ لیجئے گا کہ اس نے پولیس گارڈ کیوں ہٹائی۔” عباس نے نانو سے کہا۔



”علیزہ ! کیا تم نے عمر سے گارڈ ہٹانے کے لئے کہا تھا؟” نانو نے اچانک مڑ کر علیزہ سے پوچھا۔
”نہیں نانو! میں نے اس سے گارڈ ہٹانے کے لئے نہیں کہا۔”
اس نے مدھم آواز میں سر جھکائے ہوئے کہا۔ اس سے پہلے کہ نانو کچھ کہتیں۔ عباس نے اچانک لاؤنج میں موجود پولیس کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”باقی کام کل کرنا… اب سب کچھ رہنے دو۔” وہ لوگ اپنا سامان سمیٹنے لگے۔
”علیزہ تو۔۔۔” نانو نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر عباس نے ایک بار پھر ان کی بات کاٹ دی۔
”عمر کو آجانے دیں۔ اس کے بعد بات ہو گی۔”
نانو الجھی ہوئی نظروں سے علیزہ کو دیکھتے ہوئے لاؤنج کے صوفہ پر بیٹھ گئیں۔ لاؤنج میں موجود پولیس والے آہستہ آہستہ اپنا سامان اٹھاتے ہوئے وہاں سے نکلنے لگے۔ عباس بھی ان کے ساتھ وہاں سے نکل گیا۔
پانچ منٹ کے بعد وہ دوبارہ اندر داخل ہوا، اس بار اس کے ساتھ عمر بھی تھا۔ علیزہ اس وقت نانو کے ساتھ صو فہ پربیٹھی ہوئی آنے والے وقت کے لئے خود کو تیار کر رہی تھی۔
عباس نے اندر داخل ہوتے ہی لاؤنج کا دروازہ اندر سے بند کر لیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!