Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”تو علیزہ بی بی ! کیا کرنا چاہتی ہیں آپ؟”
عباس نے اس کے بالمقابل صوفہ پر بیٹھے ہوئے کہا۔ اس نے سر اٹھا کر اسے اور عمر کو دیکھا۔ سرد مہری اور سنجیدگی کے علاوہ ان دونوں کے چہرے پر اور کچھ بھی نہیں تھا۔
فون پر عباس سے بات کرنا اور بات تھی۔ آمنے سامنے اس سے کچھ کہنا دوسری بات… اور وہ بھی ان حالات میں جس میں وہ گرفتار تھی۔ وہ عمر نہیں تھا جس پر وہ چلا لیتی۔ اس کی بات کے جواب میں کچھ بھی کہنے کے بجائے اس نے سر جھکا لیا۔ وہ جانتی تھی اب نانو سب کچھ جان جائیں گی۔ پچھلے دن عمر کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو اور اس کے بعد جسٹس نیاز کے سامنے کیا جانے والا انکشاف۔
”میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے؟” اس کی آواز میں اب کچھ تیزی تھی۔
”میں… میں کیا کرنا چاہتی ہوں؟” اس نے بمشکل کہا۔
”کل فون پر کچھ کہہ رہی تھیں تم مجھ سے؟” علیزہ نے نانو کی طرف دیکھا۔ وہ اسی کو دیکھ رہی تھیں۔ علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ عباس کی بات کے جواب میں کیا کہے۔ اس کا غصہ اور اشتعال یک دم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔



”اب خاموش کیوں ہو تم؟” عباس نے ایک بار پھر تلخی سے کہا۔
”آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں مجھ سے؟” اس نے سر اٹھایا۔
”وہی سب کچھ جو تم فون پر مجھ سے کہہ رہی تھیں۔” عباس نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
”جو کچھ میں نے آپ سے فون پر کہا۔ مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔” اس نے عباس سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
”اور جو کچھ تم نے جسٹس نیاز سے کہا…؟”
”مجھے اس پر بھی کوئی شرمندگی نہیں ہے۔”
”جسٹس نیاز… کیا علیزہ نے جسٹس نیاز سے کچھ کہا ہے؟” نانو بے اختیار چونکیں۔
”کچھ؟… سب کچھ گرینی ! یہ انہیں فون پر سب کچھ بتا چکی ہے۔ کس طرح میں نے اور عمر نے ان کے بیٹے اور اس کے دوستوں کو مارا… کیوں مارا؟ سب کچھ۔”
”علیزہ؟” نانو کو جیسے عباس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
عباس یک دم ہونٹ بھینچتے ہوئے اپنے صوفہ سے اٹھا اور اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ علیزہ کے ہاتھ پکڑ کر اسے بھی اس کی جگہ سے اٹھادیا۔ علیزہ عباس کی اس حرکت کے لئے تیار نہیں تھی۔ وہ اسی طرح اسے بازو سے کھینچتے ہوئے لاؤنج کے دروزے کی طرف جانے لگا۔
”عباس! اسے کہاں لے کر جا رہے ہو؟” نانو نے مداخلت کرنے کی کوشش کی۔
”کہیں نہیں گرینی! ابھی واپس لے آتا ہوں۔ آپ اطمینان سے بیٹھیں۔”
اس نے علیزہ کی مزاحمت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا۔ جو اب اس سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ دروازہ کھول کر اسی طرح اسے کھینچتے ہوئے باہر لے آیا۔
”عباس بھائی! میرا ہاتھ چھوڑ دیں۔ آپ کہاں لے کر جانا چاہتے ہیں مجھے؟” عباس نے یک دم اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
”کہیں نہیں لے کر جانا چاہتا تمہیں۔ میں تمہیں صرف باہر کی دیوار اور وہ گولیاں دکھانا چاہتا ہوں جو چند گھنٹوں میں یہاں برسائی گئی ہیں۔ تمہیں دیکھنا چاہئے، تمہاری حماقت کی وجہ سے کیا ہوا ہے؟”
”مجھے کچھ نہیں دیکھنا۔” علیزہ نے واپس اندر جانے کی کوشش کی۔
عباس نے ایک بار پھر اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے کھینچتے ہوئے گیٹ کی طرف لے جانے لگا۔
”کیوں نہیں دیکھنا جو چیز تمہاری وجہ سے ہوئی ہے۔ اسے دیکھنا چاہئے تمہیں۔” وہ کہہ رہا تھا۔ علیزہ نے مزاحمت ختم کر دی۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
گیٹ کی طرف جاتے ہوئے اس نے بہت دور سے گیٹ پر بے شمار چھوٹے چھوٹے سوراخ دیکھ لیے تھے۔ وہ سوراخ کس چیز کے تھے، اسے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ گیٹ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا اور اس کے باہر پولیس کی دو گاڑیاں موجود تھیں۔ گیٹ پر موجود پولیس والے عباس کو آتا دیکھ کر مستعد ہو گئے تھے۔ علیزہ کی شرمندگی میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو گیا۔ عباس اب خاموش تھا مگر وہ اب بھی اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔
گیٹ کے باہر جاتے ہوئے اس نے انگلش میں علیزہ سے کہا۔



”دروازے بند کرکے گھر کے اندر بیٹھے ہوئے باتیں کرنا، بہت آسان ہوتا ہے۔ تمہاری طرح ہر ایک کو اخلاقیات یاد آسکتی ہیں۔ یہاں کھڑے ہو کر اس دیوار کو دیکھو اور پھر سوچو کہ دیوار کی جگہ تم ہوتیں تو۔”
اس نے عباس کی بات کے جواب میں کچھ بھی نہیں کہا۔ وہ صرف خاموشی سے باؤنڈری وال کو دیکھتی رہی جو بری طرح مسخ ہو چکی تھی۔ باہر لگے ہوئے آرائشی پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ادھر ادھر پڑے ہوئے تھے۔ رات کو فلڈ لائٹس کی روشنی میں وہ دیوار اور گیٹ جتنا خوفناک لگ رہا تھا۔ دن کے وقت اس سے زیادہ لگتا۔
”تمہارے لئے صرف ایک گولی کافی تھی۔” وہ مدھم آواز میں انگلش میں بولا۔ شاید وہ اردگرد موجود دوسرے لوگوں کی وجہ سے احتیاط کر رہا تھا۔ علیزہ کچھ بول نہیں سکی۔ وہ اب اس کا ہاتھ چھوڑ چکا تھا۔
”اندر آؤ۔” وہ درشتی سے اس سے کہتے ہوئے واپس گیٹ کی طرف مڑ گیا۔
علیزہ نے اسی خاموشی کے ساتھ سر جھکائے ہوئے اس کی پیروی کی۔ اس نے گیٹ کے اندر آکر اس سے کچھ نہیں کہا۔ تیز قدموں کے ساتھ وہ اندر جا رہا تھا۔علیزہ سر جھکائے اس کے پیچھے چلتی رہی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!