Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

آگے پیچھے چلتے ہوئے جب وہ لاؤنج میں پہنچے تو نانو اور عمر ابھی بھی وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ نانو کے چہرے پر تشویش تھی جبکہ عمر کے ہاتھ میں اس وقت پائن ایپل کا ایک ٹن تھا اور وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے ہوئے بڑے اطمینان سے کانٹے کے ساتھ پائن ایپل کے سلائس کھانے میں مصروف تھا۔ ان دونوں کو اندر آتے دیکھ کر اس نے ایک لمحے کے لئے نظر اٹھائی اور پھر ایک بار پھر پائن ایپل کھانے میں مصروف ہو گیا۔
علیزہ خاموشی کے ساتھ صوفہ پر جا کر بیٹھ گئی۔
”اب اس کے بعد اور کیا ہے آپ کے ذہن میں؟” عباس نے اس بار علیزہ کا نام نہیں لیا تھا مگر علیزہ جانتی تھی، یہ سوال اس سے ہی کیا گیا ہے۔



”مجھے اب بھی کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ یہ سب میری وجہ سے نہیں ہو رہا ۔”
عمر پائن ایپل کھاتے کھاتے رک گیا۔ عباس اوراس نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
”اگر عمر گارڈ نہ ہٹاتا تو وہ لوگ یہاں کبھی حملہ نہ کرتے۔” وہ کہہ رہی تھی۔
”کون لوگ؟” عباس نے تلخ اور تیز آواز میں اس سے کہا۔
”جو لوگ بھی یہاں آئے ہیں۔”
”کون لوگ آئے ہیں؟”
”مجھے نہیں پتا۔”
”کیوں نہیں پتا۔”
”مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے؟”
”تمہارے علاوہ اور کس کو پتا ہو سکتا ہے۔”
”آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے کہ یہاں کون آیا ہے۔”
”تم فون کرکے لوگوں کو یہاں بلواتی ہو اور پھر یہ کہتی ہو کہ تمہیں پتا نہیں ہے۔”
وہ عباس کا منہ دیکھنے لگی۔ ”میں لوگوں کو فون کرکے بلواتی ہوں؟”
”ہاں تم۔”
”میں نے کسی کو فون کرکے یہاں نہیں بلوایا۔”
”تم نے جسٹس نیاز کو فون کیا تھا۔”
اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ”آپ… آپ کا مطلب ہے کہ ان… ان لوگوں کو جسٹس نیاز نے بھجوایا تھا؟”
”اور کون ہو سکتا ہے۔”
وہ الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ ” یہ … یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جسٹس نیاز یہ کیسے کر سکتے ہیں؟”
”تم کس دنیا میں رہتی ہو۔ اپنی آنکھوں پر کون سے بلائنڈز لگا کر پھر رہی ہو۔”
وہ ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ عباس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”جسٹس نیاز… جسٹس نیاز مجھے… مجھے اغوا کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ… وہ یہ سب کریں گے… کیوں… یا اللہ۔” اس کا ذہن سوالوں کے گرداب میں پھنسا ہوا تھا۔
”مجھے یقین نہیں ہے کہ جسٹس نیاز نے یہ سب کیا ہے۔”
عباس بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ”فون پڑا ہوا ہے تمہارے سامنے … نمبر تم جانتی ہو، فون ملاؤ اور ان سے بات کر لو… اپنی خیریت کی اطلاع دو انہیں اور ساتھ یہ بھی بتا دو کہ ابھی تک تم یہیں ہو۔ وہ دوبارہ کسی کو بھیجیں۔”
علیزہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔
”تم عقل سے پیدل ہو۔”
”آپ مجھے اس لئے یہ سب کچھ کہہ رہے ہیں کیونکہ آپ خوفزدہ ہیں… یہ سب کچھ آپ دونوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ آپ لوگ ان چاروں کوقتل نہ کرتے تو آج یہ سب کچھ نہ ہو رہا ہوتا۔” اس نے سر اٹھاکر عباس سے کہا۔
”ایکسکیوزمی میڈم…! کون خوفزدہ ہے اور کس سے… تم سے؟ … جسٹس نیاز سے… مائی فٹ۔” عباس اس بار بری طرح ہتھے سے اکھڑا تھا۔
”تم کیا سمجھتی ہو کہ میں بہت خوفزدہ ہوں کل سے۔” وہ اس کے بالکل سامنے کھڑا ہوا کہہ رہا تھا۔ ”مجھے اپنا کیرئیر تاریک نظر آرہا ہے؟”
علیزہ نے سر جھکالیا۔
”اپنی گردن میں پھانسی کا پھندہ نظر آرہا ہے؟”
وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتی رہی۔
”تمہارے اس انکشاف کی وجہ سے میں نے کھانا پینا چھوڑدیا ہے؟ ” عباس کی آواز بہت بلند تھی۔
” جسٹس نیاز کے ساتھ ہونے والی گفتگو نے میری نیند اور سکون حرام کر دیا ہے؟”
اس نے عباس کو کبھی اتنے اشتعال میں نہیں دیکھا تھا۔ انکل ایاز کی طرح وہ بھی ایک نرم خو شخص تھا مگر اس وقت وہ جس طرح بول رہا تھا۔
”تمہارا خیال ہے کہ کل میں سلاخوں کے پیچھے ہوں گا؟ ”
علیزہ نے سر جھکائے ہوئے کن اکھیوں سے عمر کو دیکھا۔ وہ عباس یا علیزہ کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے کانٹے اور پائن ایپل کے ڈبے کے ساتھ مصرو ف تھا… ہر چیز سے بے پروا… ہر چیز سے بے نیاز… یوں جیسے وہاں بہت دوستانہ گفتگو ہو رہی تھی۔
”تم کون ہو علیزہ سکندر… اور جسٹس نیاز کون ہے۔”
علیزہ ایک بار پھر اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی جواب لرز رہے تھے، وہ اس لرزش کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”جس خاندان سے تم اور میں تعلق رکھتے ہیں، اس خاندان کے کسی شخص کو کورٹ میں لے جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سورج کا مغرب سے نکلنا۔ تم نے کل فون پر مجھ سے جو بھی کچھ کہا۔ میں اس سب پر لعنت بھیجتا ہوں۔”
”تم میرے خلاف پرائم Witness (عینی گواہ) بننا چاہتی ہو ضرور بنو، لیکن میں تمہیں ایک بات بتا دوں۔”
اس نے سر اٹھا کر عباس کو دیکھا۔
”وہ جو چار لڑکے میں نے مارے ہیں نا ، وہ چاروں اگر خود بھی زندہ ہو جائیں اور کورٹ میں جا کر میرے خلاف بیان دیں تو بھی… مجھے سزا دلوانا تو دور کی بات، لاہور سے میرا ٹرانسفر تک کوئی نہیں کروا سکتا۔”
اس کی آواز اور انداز میں کھلا چیلنج تھا۔
”میں یہیں تھا۔ یہیں ہوں، یہیں رہوں گا۔”



اس کی آواز اب پہلے سے ہلکی اور پہلے سے زیادہ سرد تھی۔
”اگر جسٹس نیاز یا تم جیسے لوگوں کے کہنے پر پولیس کو سزائیں ملنے لگیں۔ تو پورے ملک کی پولیس تمہیں سلاخوں کے پیچھے نظر آئے گی۔”
علیزہ نے سر جھکا لیا۔
”تم نے کل خاصی لمبی چوڑی بات کی تھی مجھ سے … لیکن مجھے کوئی فرق نہیں پڑا اس سے۔
یہ سب کچھ میری نیندیں نہیں اڑا سکتا۔ میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکالنے کے لئے تمہیں اس سے دس گناہ زیادہ بڑا سٹنٹ چاہئے۔” وہ جو کچھ کہہ رہا تھا وہ صرف بڑکیں نہیں تھیں۔ یہ وہ جانتی تھی عباس حیدر کو بڑکوں کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
”عباس بھائی! مجھے آپ سے کوئی دشمنی نہیں ہے… میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ ایک غلط کام۔۔۔”
عباس نے درشتی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”مائنڈ یور اون بزنس۔ میرے پروفیشن کی اخلاقیات سکھانے کی کوشش مت کرو۔ میں اپنے پروفیشن کو تم سے بہتر سمجھتا ہوں۔ کیا صحیح ہے کیا غلط ، اس کی تعریف مجھے تم سے نہیں چاہئے۔”
وہ خاموش ہو گئی۔)”And don’t try to poke your nose into my affairs.” تمہیں میرے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔)
وہ اس کی کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!