”دو ماہ کسی تھرڈ کلاس میگزین کے دفتر میں کام کرنے سے تم اس قابل نہیں ہو گئی ہو کہ دوسروں کو صحیح اور غلط کا فرق بتاتی پھرو۔” علیزہ نے ہونٹ بھینچ لیے۔ ”تمہارے جیسے Self Employed reformers۔ ہمیں اور نہ ہی تمہیں ہیومن رائٹس کی چیمپئن بننے کی ضرورت ہے۔”
نانو نے اب تک ہونے والی گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ وہ اگر مداخلت کرتیں بھی تو عباس انہیں بولنے کا موقع نہ دیتا۔ علیزہ کو اس کا اندازہ تھا۔
”چند منٹ اور اگر پولیس کو آنے میں دیر ہو جاتی تو وہ لوگ بیسمنٹ تک بھی پہنچ جاتے۔ اس کے بعد وہ کیا کرتے، تمہیں اس کا اندازہ ہے مائی ٹیلنٹڈ کزن؟” اس کے لہجے میں اب طنز تھا۔ ”تمہیں یہیں مار دیتے وہ یا پھر لے جاتے ساتھ… کہاں … یہ پھر کسی کو پتا نہ چلتا۔”
علیزہ کے ہونٹ لرزنے لگے۔” اپنے آپ کو کس طرح پھنسا لیا ہے تم نے… تمہیں اندازہ ہے؟” علیزہ کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔
”تمہیں ان سب چیزوں سے بچانے کے لئے ان چاروں کو مارا تھا، لیکن تم نے خود ساری مصیبتوں کو دعوت دے دی ہے… اپنے ساتھ تم نے گرینی کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔” وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔
”اب کیا کرو گی تم… بیٹھی رہو گی یہاں اندر… اسی تہہ خانے میں… کتنے دن رکھیں گے پولیس گارڈ باہر… اور کہاں کہاں پروٹیکشن دیں گے تمہیں… بڑا شوق ہے نا تمہیں ہیروئن بننے کا… لائم لائٹ میں آنے کا… تمہیں اندازہ ہے؟” اس کے آنسوؤں نے عباس پر کوئی اثر نہیں کیا۔
”جسٹس نیاز یا باقی تینوں کے گھر والے میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مگر تمہیں وہ نہیں چھوڑیں گے۔ آخر مارے تو وہ تمہاری وجہ سے ہی گئے تھے۔” اس کی آواز میں اب تلخی کے ساتھ بے رحمی بھی تھی۔
علیزہ نے اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو ڈھانپ لیا۔
”اپنے فیوچر کے بارے میں سوچا ہے، کیا ہو گا آگے؟”
اس کی آواز اب پہلے سے زیادہ مدہم تھی مگر آواز میں موجود تلخی کم نہیں ہوئی۔
”اخباروں میں تمہارا نام آئے گا… اور کس طرح آئے گا؟… لوگ سیلوٹ کریں گے تمہیں؟… یا تمہارے ہیرو ازم کو… یا پھر انگلیاں اٹھائیں گے تمہارے کریکٹر پر؟” وہ اب بھی اسی طرح بول رہا تھا۔ ”اور کون کھڑا ہو گا… تمہارے پیچھے… جسٹس نیاز … کب تک؟ … ٹشو پیپر کی طرح استعمال کریں گے وہ تمہیں… اس کے بعد… کیا کرو گی… تم؟”
اس کا دل چاہ رہا تھا وہ ، اٹھ کر وہاں سے بھاگ جائے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ وہ عباس کی تمام باتیں سننے پر مجبور تھی۔
”اور فیملی کے لوگ کیا کہیں گے؟ اس کے بارے میں سوچا ہے ۔ جو بھی کیا گیا تمہارے لئے کیا گیا اوراگر تم دوسروں کو ڈبونے کی کوشش کرو گی تو تمہیں ڈبوتے ہوئے بھی کوئی تم سے اپنا رشتہ سوچے گا… نہ لحاظ کرے گا… اور جب تمہاری اپنی فیملی تمہارے خلاف ہو جائے گی تو تم کیا کرو گی؟ ” وہ تیکھے لہجے میں اس سے پوچھ رہا تھا۔
”کیا اتنی بہادر ہو تم کہ اکیلے دنیا کا مقابلہ کر سکو… اور ایک دو دن کے لئے نہیں… ساری زندگی کے لئے۔”
وہ بے آواز رو رہی تھی۔
”جس معاشرے میں تم رہ رہی ہو… ا س کی Norms(اطوار) جانتی ہو… خاندان کی Discarded(ٹھکرائی ہوئی) عورت کا مقام جانتی ہو تم… تم کسی پہاڑ کی چوٹی پر ساری عمر کے لئے چلہ کاٹنے بھی بیٹھ جاؤ تو بھی تمہاری پاک بازی پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔”
عباس کی باتوں میں وہی تلخی تھی جو عمر کی باتوں میں ہوا کرتی تھی۔ عمر کے لہجے میں اس کے لئے سرد مہری کے باوجود کبھی کبھار اپنائیت جھلکنے لگتی تھی… عباس کے لہجے میں ایسی کوئی اپنائیت نہیں تھی۔ وہ بہت ٹھوس لہجے میں بول رہا تھا۔
”اور تمہیں اگر کہیں یہ شائبہ ہے کہ میں کبھی اپنی اس حرکت پر پچھتاوا محسوس کروں گا یا مجھے اپنے فیصلے پر کوئی شرمندگی ہو گی… تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔”
وہ مسلسل بول رہا تھا۔
”اگر دوبارہ وقت پیچھے چلا جائے تو میں ایک بار پھر وہی کروں گا جو میں نے کیا… میں ان چاروں کو پھر شوٹ کروا دوں گا… اوردس بار موقع ملنے پر بھی میں یہی کروں گا۔”
اس کا لہجہ اب بھی اتنا ہی تلخ تھا۔ ”یہ کوئی بے سوچا سمجھا فیصلہ نہیں تھا… طے شدہ تھا… میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا اور مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔” وہ اب اپنے صوفہ پر جا کر بیٹھ گیا۔
”میں نے ابھی تک پاپا کو تمہاری کل کی حرکت کے بارے میں نہیں بتایا۔ اب بتاؤں گا… باقی باتیں تم خود ان سے کر لینا۔” اس کی آواز کا اشتعال اب بہت کم ہو گیا تھا۔
”گرینی! آپ اپنی پیکنگ کر لیں۔ آپ ابھی میرے گھر شفت ہو رہی ہیں کیونکہ میں آپ کو یہاں نہیں چھوڑ سکتا… کم از کم تب تک جب تک سب کچھ ٹھیک نہیں ہوجاتا۔” وہ اب نانو سے مخاطب تھا۔
”اور علیزہ جہاں تک تمہارا تعلق ہے۔ تم اپنی سیکورٹی کی خود ذمہ دار ہو… بہتر ہے تم خود جسٹس نیاز کے پاس چلی جاؤ۔ اس طرح کم از کم تمہاری زندگی محفوظ رہے گی… اور اگر تم یہاں ہی رہنا چاہتی ہو تو رہ سکتی ہو لیکن تمہارے لئے میں اب یہاں کوئی پولیس پروٹیکشن نہیں دے سکتا۔”
وہ بات کرتے کرتے اُٹھ گیا۔
”آئیے گرینی! آپ کے ساتھ آپ کی پیکنگ کرواؤں۔”
علیزہ اسی طرح سر جھکائے آنسو بہاتی رہی۔ چند منٹوں کے بعد اس نے نانو، عمر اور عباس کو لاؤنج سے نکلتے محسوس کیا۔
علیزہ نے اپنی آنکھوں سے ہاتھ ہٹا لیے اور سر اوپر اٹھایا۔ چند لمحے کے لئے وہ ساکت ہو گئی۔ عمر وہیں تھا… سامنے صوفہ پر بیٹھے ہوئے… اس پر نظریں جمائے… اب اس کے ہاتھ میں پائن ایپل کا ٹن نہیں تھا۔ علیزہ نے ایک بار پھر سر جھکا لیا۔
عمر اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس آگیا۔ سینٹر ٹیبل کو کھینچ کر وہ اس کے بالمقابل لے آیا اور ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے اس نے علیزہ کی آنکھوں سے اس کے ہاتھ ہٹا دیئے۔ علیزہ نے برہمی سے اس کے ہاتھ پیچھے کرنے کی کوشش کی۔