Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے عمر۔”
”میری وجہ سے؟”
”تم نے پولیس گارڈ ہٹائی تھی۔”
”وہ تمہاری خواہش تھی۔”
”تمہاری وجہ سے عباس نے میری انسلٹ کی ہے۔”
”اس نے تمہاری انسلٹ نہیں کی… تمہیں حقائق بتائے ہیں۔”
وہ جواب میں کچھ کہنے کی بجائے رونے لگی۔
”تم نے سوچا ہے، ابھی کچھ دیر کے بعد جب ہم سب یہاں سے چلے جائیں گے تو کیا ہو گا؟… یہاں اکیلے رہ سکو گی… اور پھر جو کچھ تم کرنا چاہتی ہو… یا اس کے نتائج پر غور کیا ہے تم نے، تم منظر سے ہٹ کیوں نہیں جاتیں؟”
وہ ایک لمحہ کے لئے رکا۔” Why don’t you get out of every thing.
علیزہ نے سر اٹھا کر بے یقینی سے اسے دیکھا۔ ” کیا یہ ممکن ہے؟… اب؟”
”کیوں نہیں؟”
”کیسے؟”
”یہ مجھ پر چھوڑ دو۔”
”لیکن کیسے؟”
”اپنا سامان پیک کرو اور عباس کے ساتھ چلی جاؤ… صبح وہ تمہیں اسلام آباد انکل ایاز کے پاس بھجوا دے گا۔ چند ماہ وہاں رہو… جب سب کچھ سیٹل ہو جائے تو واپس آجانا…It’s as simple as that…اس نے جیسے چٹکی بجاتے میں حل پیش کیا۔



”کیا عباس مجھے لے کر جائے گا؟”
”ہاں کیوں نہیں… وہ نہیں تو میں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ تم اب بھی ہمارا حصہ ہو۔” اس نے جیسے علیزہ کو یقین دلایا۔
”مگر میں جو کچھ جسٹس نیاز کو بتا چکی ہوں… سب کچھ کل پریس میں آسکتا ہے… اور پھر۔۔۔”
”اس کو ہم ہینڈل کر لیں گے… وہ اب تمہارا درد سر نہیں ہے… تم بس خاموشی سے اسلام آباد میں رہنا۔ ” وہ پلکیں جھپکائے بغیر عمر کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”میں تم پر کوئی دباؤ نہیں ڈال رہا ہوں… تم فیصلہ کرنے کے لئے آزاد ہو، لیکن میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں… میں نہیں چاہتا کہ تمہاری زندگی برباد ہو جائے۔۔۔” وہ محتاط اور سنجیدہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”تمہیں کسی چیز کے لئے بھی گلٹی فیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے… اگر تمہارے نزدیک کوئی غلط کام ہوا ہے تو اس کے ذمہ دار میں اور عباس ہیں… پھر تم اپنی زندگی کیوں خراب کر رہی ہو۔” وہ چند لمحوں کے لئے رکا۔
”ابھی کسی کو کچھ بھی نہیں پتا… فیملی میں نانو، میرے اور عباس کے علاوہ اور کوئی بھی کچھ نہیں جانتا… اور ہم تینوں تمہاری اس حماقت کو بھلا سکتے ہیں… چند ماہ بعد تم اپنی زندگی دوبارہ یہیں سے شروع کر سکتی ہو۔”
اس کے بہتے ہوئے آنسو رک گئے۔ “Stay out of everything Aleeza! just stay out.” (دور چلی جاؤ علیزہ! اس سب سے دور چلی جاؤ)
وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اور لفظوں کو سنتے ہوئے مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار ہو چکی تھی۔ کچھ دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے تھکے ہوئے انداز میں سر جھکا لیا۔
”ٹھیک ہے۔”
عمر کے چہرے پر پہلی بار ایک پر سکون مسکراہٹ ابھری۔



”تم جا کر اپنی چیزیں پیک کرو۔ میں عباس سے بات کرتا ہوں۔”
اس نے علیزہ کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ وہ کچھ کہے بغیر اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔
اپنے بیگ میں اپنے کپڑے اور دوسری چیزیں رکھتے ہوئے وہ بری طرح شکست خوردہ تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ جنگ کے میدان سے بھاگ جانے والا فوجی ہو۔
”لیکن اس میں میرا کیا قصور ہے؟… جسٹس نیازنے کیوں یہ سب کچھ کروایا … جب میں اپنی مرضی سے ان کا ساتھ دینے پر تیار تھی تو پھر اس سب کا کیا مطلب تھا۔” وہ اپنے فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”اور پھر میں نے عمر اور عباس کو نہیں کہا تھا کہ وہ ان چاروں کو مار دیں۔ پھر میں آخر کس چیز کی سزا بھگتوں۔” وہ جانتی تھی ساری دلیلیں شرمندگی کے اس احساس کو مٹانے میں ناکام تھیں جس نے اس کا گھیراؤ کیا ہواتھا۔
ستے ہوئے چہرے کے ساتھ وہ جس وقت اپنا بیگ اٹھائے لاؤنج میں آئی، اس وقت عباس، عمر اور نانو تینوں وہیں تھے۔ شاید وہ اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ عمر نے آگے بڑھ کر اس کا بیگ اٹھا لیا۔ کچھ کہے بغیر ساتھ چلتے ہوئے وہ لاؤنج سے باہر نکل آئے جہاں اب ایک کار کھڑی تھی۔ وہ چاروں بڑی خاموشی کے ساتھ اس میں سوار ہو گئے۔نانو کے گھر سے عباس کے گھر تک کا سفر بھی اسی خاموشی سے طے ہوا تھا۔ عباس کی بیوی تانیہ ان کا انتظار کر رہی تھی۔ شاید عباس نے اسے فون کیا تھا۔
”کیا ہوا عباس! میں تو بہت پریشان ہو گئی تھی… سب کچھ ٹھیک تو ہے؟” اس نے پورچ میں ان لوگوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا۔
”کون لوگ تھے گرینی؟” وہ اب نانو سے پوچھ رہی تھی۔
”کون لوگ ہو سکتے ہیں… ڈاکو وغیرہ تھے۔” عباس نے بات گول کرتے ہوئے کہا۔
”اوہ گاڈ… کوئی نقصان تو نہیں ہوا؟” وہ اب تشویش بھرے لہجے میں علیزہ سے پوچھ رہی تھی۔
”نہیں۔ بس فائرنگ کی تھی انہوں نے اور پھر بھاگ گئے۔ چوکیدار معمولی زخمی ہوا تھا۔”اس بار بھی عباس نے ہی جواب دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!