”تم نے کمرے ٹھیک کروا دیئے؟”
”ہاں میں نے بستر وغیرہ لگوا دیئے ہیں… ویسے تو صبح ہونے والی ہے مگر آپ لوگ تو ساری رات سوئے ہی نہیں ہوں گے۔ بہتر ہے کچھ دیر آرام کر لیں۔” تانیہ نے کہا۔
ملازم ان کا سامان لے کر پہلے ہی جا چکا تھا۔ تانیہ نانو کو ساتھ لے کر اندر جانے لگی۔ علیزہ نے بھی ان کے پیچھے جانا چاہا مگر عباس نے اسے روک دیا۔
”علیزہ !” وہ رک گئی۔ عباس کی آواز نرم تھی، کچھ دیر پہلے والی تلخی اور ترشی غائب ہو چکی تھی۔
”پریشان مت ہو علیزہ!” اس نے عباس کو دیکھا اور اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ عباس دو قدم آگے بڑھ آیا اور اس نے علیزہ کے کندھے پر اپنا بازو پھیلا دیا۔
”ہمیں تمہاری بہت پروا ہے اور اگر میری کوئی بات تمہیں بری لگی ہو تو آئی ایم سوری۔” علیزہ نے صرف سر ہلا دیا۔
”تمہاری چوٹ اب کیسی ہے؟” وہ اب اس کے گال پر پڑے ہوے نیل کو چھوتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
”ٹھیک ہے۔”
”تانیہ اگر اس چوٹ کے بارے میں پوچھے تو اس سے یہی کہنا کہ تمہیں گھر میں ہی لگی ہے… میں نے اسے چند دن پہلے کے واقعہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔”
علیزہ نے سر ہلا دیا۔
”تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو ملازم یا تانیہ سے کہہ دو… اور آرام سے سو جاؤ… میں سہ پہر کی فلائٹ سے تمہیں اسلام آباد بھجوا دوں گا… سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
وہ اب اسے تسلیاں دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ علیزہ کو شرمندگی ہورہی تھی۔ وہ عباس کے ساتھ کیا کرنا چاہتی تھی اور وہ کیا کر رہا تھا۔ ”کیا وہ احسان فراموش تھی؟” اسے خیال آیا وہ سر جھکا کر اس کمرے کی طرف چلی گئی جہاں اسے رہنا تھا۔
عمر اور عباس نے اسے وہاں سے جاتے دیکھا۔ پھر عباس ایک گہرا سانس لیتے ہوئے صوفہ پر بیٹھ گیا۔
”علیزہ نے کل میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکال دی تھی۔” اپنی شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے اس نے کہا۔
”بہرحال اب تو سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔” عمر بھی مسکراتے ہوئے دوسرے صوفہ پر بیٹھ گیا۔
”You are a master plan maker.” (تم بلا کے سازشی ہو) عباس نے ستائشی انداز میں عمر سے کہا۔
“Planmaker?” عمر نے اپنی بھنوئیں اچکاتے ہوئے کہا۔ ”اس نے تو اندھی گلی میں لا کر کھڑا کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ اور چارہ کیا تھا؟”
عباس نے اب اپنا موبائل اٹھا لیا۔ ”پاپا کو انفارم کر دینا چاہئے۔” اس نے ایک نمبر ڈائل کرتے ہوئے عمر سے کہا۔ عمر نے کچھ کہے بغیر سر ہلا دیا۔
عباس کا رابطہ قائم ہو چکا تھا۔
”ہیلو !” وہ اب ایاز حیدر سے بات کر رہا تھا۔ ” علیزہ ہمارے ساتھ آگئی ہے۔” اس نے چھوٹتے ہی انہیں اطلاع دی۔
”گڈ۔ اسے کوئی شک تو نہیں ہوا؟”
”نہیں، میرا خیال ہے، اسے کوئی شک نہیں ہوا… وہ خاصی شرمندہ ہے۔” عباس نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ تم اب کل اسے اسلام آباد بھیج دو۔”
”آپ نے ماما سے بات کی ہے؟”
”نہیں، ابھی تھوڑی دیر بعد کروں گا۔ پہلے کرنے کا کیا فائدہ ہوتا… پہلے یہ تو کنفرم ہو جاتا کہ پلان کامیاب رہے گا یا نہیں۔” دوسری طرف سے ایاز حیدر نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ آپ ماما سے بات کرلیں اور ایک بات کا خیال رکھیں ، ہم نے علیزہ کو یہی بتایا ہے کہ آپ کو کچھ پتا نہیں ہے اور ہم جو بھی کر رہے ہیں یا اس نے جو بھی کیا ہے۔ اس کے بارے میں آپ کو بتایا نہیں گیا۔” عباس نے اچانک یاد آنے پر کہا۔
”یہ کیوں؟… میں اس سے واقعی بات کرنا چاہتا ہوں… اس کی اس ساری حماقت پر؟” ایاز حیدر نے کہا۔
”پاپا! یہ عمر نے کہا ہے… آپ اس سلسلے میں عمر سے بات کر لیں۔” عباس نے موبائل پر کہا اور بات کرتے ہوئے موبائل عمر کی طرف بڑھا دیا۔
عمر ایاز حیدر کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو بڑے غور سے سن رہا تھا، اس نے کسی سوال یا اعتراض کے بغیر عباس کے ہاتھ سے موبائل پکڑ لیا۔ رسمی سی سلام دعا کے بعد ایاز حیدر نے چھوٹتے ہی اس سے بھی وہی کہا جو وہ عباس سے کہہ چکے تھے۔
”علیزہ کو یہ کیوں کہا ہے تم نے کہ تم لوگوں نے مجھے کچھ نہیں بتایا؟” انہوں نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔