Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”اگر نہیں جانتے تھے تو ان کو جان لینا چاہیے تھا، آنکھیں اور دماغ نہیں رکھتے تھے کیا وہ۔ آج بے خبری میں تمہاری پیچھے آئے تھے کل جانتے بوجھتے آتے۔”
”آپ کی منطق میری سمجھ سے باہر ہے۔”
”تمہاری سمجھ سے تو بہت ساری چیزیں باہر ہیں۔ تم جانتی ہو وہ تمہیں پکڑ لیتے تو کیا کرتے؟”
”مگر انہوں نے مجھے پکڑا نہیں تھا، نہ ہی مجھے کوئی نقصان پہنچایا ، میں بچ گئی تھی۔”
”تم اس لئے بچ گئی تھیں کہ پولیس دس منٹ کے اندر اس علاقے میں پہنچ گئی تھی ورنہ وہ تو تمہارا کوئی لحاظ نہ کرتے۔”
”وہ کیا کرتے اور کیا نہیں میں اس کی بات نہیں کر رہی ہوں۔ انہوں نے جو کیا آپ اس کی بات کریں۔ انہوں نے صرف ایک لڑکی کا پیچھا کیا اسے اغوا کرنے کی کوشش کی اور اس جرم کی سزا دنیا کے کسی قانون کے تحت بھی موت نہیں ہو سکتی۔”
”مجھے اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ دنیا کے کسی قانون میں اس جرم کی سزا موت ہے یا نہیں میں نے انہیں اس جرم کے لئے سزا دی جو وہ کرنا چاہتے تھے۔”
”مگر کیا تو نہیں تھا؟”
”کرنا تو چاہتے تھے۔” وہ اپنی بات پر اڑا ہواتھا۔
”پولیس صرف ارادے پر لوگوں کو سزائے موت کب سے دینے لگی؟”
عباس نے دوسری طرف ایک گہرا سانس لیا۔
People are judged by their intentions.”(لوگ اپنے ارادوں سے ہی جانے جاتے ہیں۔)” اس کا لہجہ اس بار بالکل خشک تھا۔
”لیکن انہیں صرف ان کے ارادوں کی وجہ سے سزا نہیں دی جاتی۔”
”علیزہ! میں اس وقت بہت مصروف ہوں، ایک میٹنگ سے فارغ ہوا ہوں، تھوڑی دیر بعد دوسری میٹنگ ہے۔ اس لئے بہتر ہے اس بات کو ابھی ختم کر دیں۔ بعد میں اس پر تفصیلی گفتگو ہو گی۔ تم یہ بتاؤ تمہاری چوٹ پہلے سے بہتر ہے یا نہیں؟”
وہ اب واقعی موضوع بدل دینا چاہتا تھا۔



”آپ میری چوٹ کے بارے میں بات نہ کریں، آپ مجھ سے صرف وہی بات کریں جو میں کرنا چاہتی ہوں۔”
”اور اگر یہی بات میں تم سے کہوں کہ تم مجھ سے صرف وہی بات کرو جو میں کرنا چاہتا ہوں تو پھر؟” عباس کی ٹون میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
”یہ میری بدقسمتی تھی کہ نانو نے آپ سے مدد مانگی، وہ ایسا نہ کرتیں تو وہ چاروں آج زندہ ہوتے۔”
”وہ چاروں اگر آج زندہ ہوتے تم زندہ نہ ہوتیں۔” عباس نے جیسے اسے یاد دہانی کروائی۔
”آپ ایک بار پھر ان کی سوچ کی بات کر رہے ہیں۔”
”ہر جرم سوچ سے ہی شروع ہوتا ہے۔”
”میں آپ کی طرح پریکٹیکل نہیں ہو سکتی کہ منہ اٹھاؤں اور جس کو جہاں چاہوں مار دوں یہ کہہ کر وہ جرم کرنے والا تھا۔”
”میں فون بند کر رہا ہوں۔” عبا س نے علیزہ سے کہا۔
”کر دیں مگر وہ بات ضرور سن لیں، جو میں آپ سے کہنا چاہتی ہوں۔” اس بار علیزہ کی آواز میں ٹھہراؤ تھا عباس ریسیور رکھتے رکھتے رک گیا۔ اسے حیرت ہوئی علیزہ ایسی کون سی بات کہنا چاہتی تھی۔
”کیا ابھی کوئی بات باقی رہ گئی ہے۔ جو تم کہنا چاہتی ہو؟”
”ہاں میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں جسٹس نیاز کے گھر والوں کو سب کچھ بتا رہی ہوں۔”
ریسیور پر عباس کے ہاتھ کی گرفت سخت ہو گئی۔
”اس رات جو کچھ ہوا تھا، میں انہیں بتا دوں گی۔”
”بتا دوں گی۔” عبا س نے دل ہی دل میں دہرایا، اس کا ذہن برق رفتاری سے اپنا لائحہ عمل طے کر رہا تھا۔
ایک ہاتھ میں ریسیور لئے اس نے دوسرے ہاتھ سے انٹر کام کا ریسیور اٹھایا اور کان سے لگانے کے بعد کندھے کی مدد سے ٹکائے رکھا دوسرے ہاتھ سے اس فون کا ریسیور کان سے ہٹا کر نیچے کیا اور ماؤتھ پیس پر دوسرا ہاتھ رکھ دیا۔
”جسٹس نیاز کے آپریٹر سے کہہ دو کہ جب تک اسے دوبارہ ہدایات نہ ملیں، وہ جسٹس نیاز کے گھر آنے والی کسی کال کے کالر کی ان سے بات نہ کروائے اور جس فون نمبر پر میں ابھی بات کر رہا ہوں۔ اس کو چند منٹوں کے اندر ایکسچینج کے ذریعے ڈس کنکٹ کروا دو۔ انسپکٹر قیوم سے کہو، دو منٹ کے اندر مجھ سے رابطہ قائم کرے۔ ”



دھیمی آواز میں اس نے ساری ہدایات دینے کے بعد انٹر کام بند کر دیا اور دوبارہ فون ریسیور کو کان سے لگا کر علیزہ کی گفتگو سننے لگا، اس کے ماتھے پر بل تھے۔ واضح طور پر اس کی گفتگو اس کے لئے ناگواری کا باعث تھی۔
”ہر شخص پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ”وہ اب کہہ رہی تھی۔” کہ وہ اپنے سامنے ہونے والے جرم کو پولیس سے نہ چھپائے، پولیس کو اس کے بارے میں ضرور انفارم کرے۔ میں نے بھی آپ کو اپنے سامنے ہونے والے اس جرم سے انفارم کر دیا ہے، جس میں خود پولیس ہی انوالو ہے۔ آپ چونکہ اس پر کوئی کارروائی نہیں کریں گے اس لئے میں خود تمام انفارمیشن پریس اور ان لوگوں کی فیمیلیز کو پہنچا دوں گی۔ جن کے بیٹوں کو آپ نے مارا ہے۔”
دوسری طرف مکمل خاموشی تھی، علیزہ کو پہلی بار سکون محسوس ہوا تھا۔ بات مکمل کرنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔
اس کے فون کے بند ہوتے ہی آپریٹر نے انسپکٹر قیوم سے اس کا رابطہ کروا دیا۔
”جس گھر پر میں نے گارڈ لگوائی ہے۔ اس گھر سے اب نہ تو کوئی باہرآئے گا۔ نہ ہی اندر جائے گا۔ جب تک میں اجازت نہ دوں، تم اسی ہدایت پر عمل کرو گے۔ گھر کے کسی ملازم کو بھی باہر نکلنے نہیں دو گے۔”
اس نے فون بند کرنے کے بعد آپریٹر کو عمر سے رابطہ کروانے کے لئے کہا۔
”ہاں عمر! میں عباس بول رہا ہوں۔” رابطہ ہوتے ہی اس نے کہا۔
”ہاں عباس ! کیا بات ہے؟”
”علیزہ سے جا کر ملو۔” عباس نے کسی توقف کے بغیر کہا۔
”کیا مطلب ؟ سب کچھ ٹھیک تو ہے؟” عمرکچھ چونک گیا۔
”نہیں، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ علیزہ کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔” عباس کے لہجے میں خفگی تھی۔
”کیا ہوا؟”
”ابھی کچھ دیر پہلے فون پر میری اس سے بات ہو رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ وہ جسٹس نیاز کو سب کچھ بتا دے گی۔”
”کیا؟” عمر نے بے اختیار کہا۔
”مگر کیوں؟”
”کیونکہ وہ ہیومن رائٹس کی چیمپئن ہے۔ اس کا خیال ہے کہ میں نے ان چاروں کو ”قتل” کیا ہے اور یہ غلط تھا۔ اس لئے اب یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ سب کچھ جسٹس نیاز اور پریس کو بتا دیا جائے۔”
”اس کا دماغ واقعی خراب ہو گیا ہے۔ ” عمر نے خفگی سے کہا۔
”بہرحال جو بھی ہے اب تم اس کے پاس جاؤ اور اسے سمجھاؤ۔” عباس نے اس سے کہا۔
”میں نے کچھ حفاظتی انتظامات تو کئے ہیں۔ مگر کب تک ۔ اس کے دماغ کا ٹھیک ہونا بہت ضروری ہے۔”
”تم فکر نہ کرو، میں ابھی اس کے پاس جاتا ہوں۔ سمجھا دوں گا میں اسے سب کچھ وہ جذباتی ہو جاتی ہے۔”
”جذباتی ہونے میں اور عقل سے پیدل ہو جانے میں بہت معمولی فرق ہوتا ہے۔ میں نہیں چاہتا یہ سب کچھ پاپا کو پتا چلے وہ تو بالکل Furious(برہم) ہو جائیں گے۔ ابھی پہلے ہی صورت حال خاصی خراب ہے۔ اس پر اس کا کوئی بیان یا نام کہیں پہنچ گیا تو سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ تم اس کے پاس جاؤ اور پھر اس سے بات کرنے کے بعد مجھ سے رابطہ کرو۔ ” وہ کچھ دیر مزید عمر سے اسی بارے میں بات کر تا رہا اور پھر اس نے فون بند کر دیا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!