”انکل ! وہ پہلے ہی خاصی شرمندہ ہے میں اسے اور شرمندہ کرنا نہیں چاہتا۔۔۔” عمر نے مدافعانہ انداز میں کہا۔
”ہو سکتا ہے۔ وہ شرمندہ ہو لیکن اس سے اس سلسلے میں بات تو ہونی چاہئے۔ جو کچھ اس نے کرنے کی کوشش کی ہے۔It is simply outrageous … میں تو اس سے اس سب کی توقع ہی نہیں کر رہا تھا اور نہ ہی عباس۔۔۔”
”لیکن انکل۔۔۔” عمر نے کچھ کہنے کی کوشش کی ایاز حیدر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اسے اندازہ تو ہونا چاہئے کہ اس کی یہ حماقت کتنی سنگین ثابت ہو سکتی تھی۔”
”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مگر وہ آج کل جس فریم آف مائنڈ میں ہے، شاید اسے صحیح اندازہ ہی نہیں ہے۔۔۔” ایاز حیدر نے عمر کی بات کاٹ دی۔
”نہیں، اسے اندازہ تو ہے… عباس سے اس نے جو کچھ کہا۔ اس سے یہ بات تو خاصی واضح ہو جاتی ہے کہ وہ یہ سب کچھ سوچے سمجھے بغیر نہیں کر رہی۔”
”انکل! وہ اس وقت غصے میں تھی… غصے میں بہت ساری باتیں سوچے سمجھے بغیر کہی جاتی ہیں… اورپھر اسے حالات کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ آپ اس کی کمپنی اور مزاج تو جانتے ہی ہیں۔” عمر اب مکمل طور پر اس کا دفاع کر رہا تھا۔
”وہ ابھی تک اس شاک سے باہر نہیں آئی… کچھ عرصہ کے بعد جب وہ ٹھیک ہو گی۔ تو اپنی اس حرکت کی (نامعقولیت) Absurdity کو خود ہی محسوس کرلے گی۔ اس لئے میں آپ سے ریکویسٹ کرتا ہوں کہ آپ اس سے ابھی کوئی بات نہ کریں۔” ایاز حیدر نے ایک گہرا سانس لیا۔
”ٹھیک ہے۔ میں اس سے بات نہیں کرتا تم اسے صبح اسلام آباد بھجوا دو۔”
”ہاں، وہ میں کردوں گا اور گرینی۔۔۔” عمر نے سکون کا سانس لیتے ہوئے پوچھا۔
”فی الحال تو انہیں عباس کے پاس ہی رہنے دو۔ بعد میں وہ واپس چلی جائیں گی۔” ایاز حیدر نے کہا۔
”اور میں؟” عمر نے ان سے پوچھا۔
”تم بھی ابھی واپس مت جاؤ۔ جب تک سارا معاملہ کلیئر نہیں ہو جاتا… لاہور میں ہی رکو… میں نے آئی جی سے بات کی ہے۔ وہ تمہاری ایک ہفتے کی چھٹی اپروو کر دیں گے۔” وہ اسے بتانے لگے۔
”آپ کی جسٹس نیاز کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے؟”
”ابھی نہیں… شاید کل یا پرسوں … میں خود بھی یہ معاملہ نمٹا کر ہی واپس جاؤں گا۔ صورتِ حال ضرورت سے زیادہ خراب ہے۔” عمر ان کے جملے پر کچھ چونکا۔
”کیوں کیا ہوا؟”
”چیمبر آف کامرس کا ایک وفد آج چیف منسٹر سے ملا ہے اور کل وہ انٹریئر منسٹر سے مل رہے ہیں… انٹریئر منسٹر نے آج فون پر مجھ سے بات کی ہے۔ معاملہ خاصا طول پکڑ رہا ہے۔”
وہ سنجیدگی سے ان کی بات سنتا رہا۔
”تم لوگوں نے بھی احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا۔”
”کیسی احتیاط؟”
”اکٹھے چار اٹھا کر مار دیئے۔”
”انکل! آپ جانتے ہی ہیں ساری صورتِ حال کو ، ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔”
”میں جانتا ہوں، اس کے باوجود اتنی Poor ہینڈلنگ کی ہے تم دونوں نے… کہ مجھے حیرانی ہو رہی ہے… تم تو چلو… ابھی نئے ہو فیلڈ میں… مگر عباس پر حیرت ہو رہی ہے مجھے… اتنے جھول چھوڑے ہیں اس نے کہ اب مجھے سب کچھ کور اپ کرنے میں دقت پیش آرہی ہے۔”
عمر نے عباس کو دیکھا، وہ اس کی طرف متوجہ تھا اور شاید اسے ہونے والی گفتگو کا کچھ اندازہ بھی تھا۔
”جب تم لوگوں کو ان کی فیمیلیز کا پتا چل گیا تھا تو بہتر تھا تم سب کو نہ مارتے… جسٹس نیاز کے بیٹے کو مار دیتے… باقیوں کو چھوڑ دیتے… کم از کم یہ جو گروپنگ ہو گئی ہے ان چاروں فیملیز کی… یہ تو نہ ہوتی۔”
”انکل! وہ چاروں اسی قابل تھے… وہاں ایک دو کو چھوڑنے کا سوال ہی نہیں تھا۔”
”ٹھیک ہے مگر تم لوگوں کو اتنی عقل کا مظاہرہ تو کرنا چاہئے تھا کہ خود سامنے نہ رہتے… پولیس کے ہی کسی اہلکار کو اس سارے آپریشن کو کنڈکٹ کرنے دیتے۔”