Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”یہ ہم نے اس لئے کیا کیونکہ ہم سب کچھ بہت جلدی اور احتیاط سے کرنا چاہتے تھے اور ہمیں یہ بھی خدشہ تھا کہ نچلے درجے کے اہلکار سب کچھ اچھے طریقے سے نہیں کر پائیں گے۔”
”تو خود تم لوگوں نے کون سے تیر مار لئے اور سیکریسی کہاں رہی… چیف منسٹر کے پاس پوری رپورٹ پہنچی ہوئی ہے۔”
”انکل! اب اس چیز کو ہم کیسے روک سکتے تھے… چیف منسٹر کے پاس تو رپورٹ جانی ہی تھی اور ہمیں اس چیز کا کوئی خوف نہیں تھا… وہ کیا کر سکتے ہیں؟” عمر نے خاصی لاپروائی سے کہا۔
”کیا کر سکتے ہیں یا نہیں… یہ تو بعد میں ہی پتا چلے گا۔ فی الحال تو میں آج اپنے کچھ دوستوں سے بات کر رہا ہوں۔ اب یہ پریشر گیم ہے۔”
”آپ نے چیف منسٹر سے کیا کہا؟”
”چیف منسٹر کی مجھے بھی زیادہ فکر نہیں ہے اور نہ ہی وہ ہمارے لئے زیادہ مسئلہ کھڑا کرے گا… مسئلہ ان چاروں فیملیز کا ہے خاص طور پر جسٹس نیاز اور چیمبر آف کامرس کے وائس پریذیڈنٹ کا۔” وہ بات کرتے کرتے رک گئے۔
”میں تم لوگوں سے بعد میں بات کروں گا، فی الحال ایک کال آرہی ہے میرے لئے۔”



عمر نے انہیں فون بند کرتے سنا۔ ایک گہری سانس لے کر اس نے موبائل واپس عباس کی طرف بڑھا دیا۔
”پاپا کیا کہہ رہے تھے کہ معاملہ کافی طول پکڑتا جا رہا ہے۔”
”To hell with it” عباس نے نفرت سے اپنے ہونٹ سکوڑتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں انہوں نے لاہور میں رکنے کے لئے کہا ہے؟”
”ہاں بار بار آنے جانے سے بہتر ہے کہ ایک بار ہی سب کچھ ختم کرکے واپس جاؤں۔ انہوں نے شاید آئی جی سے بات بھی کی ہے… میری چھٹی کے لئے۔” عمر نے صوفہ پر نیم دراز ہو کر اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔
”کیا تمہیں یقین ہے… علیزہ جسٹس نیاز سے دوبارہ روابط کرنے کی کوشش نہیں کرے گی؟” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد عباس نے اس سے کہا۔
عمر نے آنکھیں کھول دیں ”اسے رابطہ کرنا تو نہیں چاہئے۔”
”عمر! میں ” ”چاہئے” کا نہیں پوچھ رہا ہوں… وہ رابطہ کرے گی یا نہیں… میں واضح لفظوں میں جواب چاہتا ہوں۔”
عباس یک دم سنجیدہ ہو گیا۔ عمر کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے کچھ کہنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی عباس کہنے لگا۔
”میں اس کی طرف سے کوئی رسک افورڈ نہیں کر سکتا ہوں… ایک بار جسٹس نیاز تک اصلی صورت حال پہنچ گئی تو پھر کتنا بڑا اسکینڈل بنے گا۔ اس کا تمہیں اندازہ نہیں ہے… اور مجھے ابھی بھی علیزہ سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔”
”عباس ! اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ تو خاصی خوفزدہ ہو چکی ہے۔” عمر نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
”ابھی وہ خوفزدہ ہے… مگر کب تک … کل کو اس کا یہ خوف ختم ہو گیا تو پھر کیا ہو گا اگر اس پر ایک بار پھر ہیومن رائٹس کے دورے پڑنا شروع ہو گئے… اور اس نے ایک بار پھر جسٹس نیاز کو سب کچھ بتانے کی کوشش کی… یا پھر پریس کی مدد لی۔”
”عباس ! میں اسے سمجھا لوں گا… وہ کچھ نہیں کرے گی۔”
”عمر! یہ کام تم پہلے بھی نہیں کر سکے ہو… جب تم آج صبح اسے سمجھانے گئے تھے تو اس نے تمہاری بات نہیں سنی… اور ابھی بھی اگر وہ یہاں میرے گھر موجود ہے تو تمہاری کسی بات سے قائل ہو کر نہیں بلکہ اس سارے ڈرامے سے خوفزدہ ہو کر ۔”
”تم کیا کہنا چاہتے ہو؟” عمر الجھا۔
”میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کل وہ تمہاری باتوں سے قائل نہیں ہوئی… تو ہم دوبارہ کیا ڈرامہ کریں گے۔”
”میں اپنا کیرئیر کم از کم علیزہ کی وجہ سے خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔”
عباس نے اپنی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ایک سگریٹ نکالتے ہوئے کہا۔



”میری پروموشن ڈیو ہے اور اپنی فیملی کا کوئی فرد میرے خلاف کسی کے ہاتھ کا ہتھیار بنے تو پھر۔۔۔”
اس نے پیکٹ عمر کی طرف بڑھایا، عمرنے بھی پیکٹ سے ایک سگریٹ نکال لیا۔ عباس نے پیکٹ سامنے پڑی ٹیبل پر رکھا اور لائٹر سے سگریٹ دونوں ہونٹوں میں دبا کر سلگانے لگا۔ اس نے بات مکمل نہیں کی تھی۔ عمر سگریٹ ہاتھ میں لئے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ عباس نے لائٹر عمر کی طرف بڑھا دیا اور خود سگریٹ سلگا کر لائٹر ٹیبل پر رکھ دیا۔
”ہاں۔ وہ ہمارے خاندان کا ایک حصہ ہے مگر میں اس کے لئے اپنا کیرئیر تباہ نہیں کر سکتا۔” عباس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”میں کر سکتا ہوں۔” عمرنے بے تاثر آواز میں صوفہ کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
”تمہاری حقیقت پسندی کچھ ختم نہیں ہوتی جا رہی۔۔۔” عباس نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”میں اس کے بارے میں حقیقت پسند ہوں… اور میں نے تمہیں حقیقت ہی بتائی ہے… میں اس کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔”
”چاہے وہ اس طرح کی حماقتیں کرے۔” عباس نے تیکھے انداز میں کہا۔
”وہ آئندہ ایسا کچھ نہیں کرے گی۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں۔”
عباس کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”شادی کیوں نہیں کر لیتے؟” عمر نے حیرانی سے اس کا منہ دیکھا۔
”کیا احمقانہ سوال ہے… اس ساری گفتگو کے دوران میری شادی کہاں سے آگئی۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!