”میں تمہاری اور علیزہ کی شادی کی بات کر رہا ہوں۔” عباس نے اسی انداز میں کہا۔
”کم آن۔” عمر نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں پھینکتے ہوئے سگریٹ کے پیکٹ سے ایک اور سگریٹ نکال لیا۔
”کیوں؟ پسند نہیں کرتے تم اسے؟”
”عباس! کوئی اور بات کرو۔”
”کیوں؟ یہ کیوں نہیں… تمہاری اچھی خاصی Affiliation ہے اس کے ساتھ… بلکہ انڈر اسٹینڈنگ بھی… تمہیں شادی کر لینی چاہئے اس کے ساتھ۔”
”عباس ! ہم کچھ اور بات کر رہے تھے۔۔۔” عمر کا چہرہ سپاٹ تھا۔ ”اور تم اب جو کچھ کہہ رہے ہو… اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”
”تعلق ہے۔”
”کیا تعلق ہے؟” عمر نے دوبدو کہا۔
”تم سے شادی ہونے کے بعد وہ اس سارے واقعے کے بارے میں کسی سے بات نہیں کرے گی۔”
”تم کیسے کہہ سکتے ہو؟”
”اپنے شوہر کو کورٹ میں کیسے گھسیٹے گی؟ میں پھنسوں گا تو تم بھی تو پھنسو گے… اور علیزہ یہ نہیں کرے گی… ہم اس کے بارے میں بے فکر ہو سکتے ہیں۔”
”عمر! میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔” عباس نے اس کی بے توجہی محسوس کی۔
”میں جانتا ہوں۔” عمر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”وہ اچھی لڑکی ہے۔”
”میں یہ بھی جانتا ہوں۔”
”تم دونوں ساتھ خوش رہ سکتے ہو۔”
”نہیں۔” اس نے بغیر کسی توقف کے کہا۔ ”ہم ایک ساتھ خوش نہیں رہ سکتے۔”
”کیوں؟” عباس نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”یہ سب چھوڑو… اسلام آباد میں بھی ابھی کچھ عرصہ اس پر چیک رکھوانا۔” عمر نے یک دم موضوع بدل دیا۔
”جسٹس نیاز کے آپریٹر کو بھی کہنا کہ اس سلسلے میں احتیاط کرے… علیزہ کی آواز پہچانتا ہے… آئندہ بھی اگر کبھی وہ کال کرے تو وہ جسٹس نیاز سے رابطہ کروانے کے بجائے خود ہی بات کرلے۔”
اس نے اب ہاتھ میں پکڑا ہوا سگریٹ سامنے پڑے ہوئے ایش ٹرے میں اچھال دیا۔
”میں اس کی دوست شہلا سے بھی بات کرلوں گا۔ وہ بھی اس سے بات کرے گی… میں بھی وقتاً فوقتاً اس سے رابطہ کرتا رہوں گا۔”
وہ بولتا ہوا اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ عباس بھی اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”تم یہیں رہ جاؤ۔ صبح تو ہونے ہی والی ہے… اب ہوٹل کہاں جاؤ گے؟”
”نہیں۔ مجھے جانا ہے… کچھ کام ہے مجھے… ویسے بھی ہوٹل میں زیادہ آرام سے ہوتا ہوں میں۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ عباس اس کے ساتھ چلنے لگا۔
باہر پورچ سے نکلتے ہوئے اس نے عمر سے کہا۔ ”میری بات پر غور ضرور کرنا۔”
”کس بات پر؟”
”علیزہ کے ساتھ شادی پر۔”
”میں بہت پہلے اس پر غور کر چکا ہوں۔”
”پھر؟”
”تمہیں بتا تو دیا ہے۔”
عباس نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”تم زندگی میں ایک کے بعد ایک بے وقوفی کر رہے ہو… کسی دن ایمانداری سے اپنا تجزیہ کرنا… شاید تمہیں یہ پتا چل جائے کہ بعض دفعہ دوسروں کا مشورہ مان لینا چاہئے۔” عباس نے اس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہلکا سا دباؤ ڈال کر کہا۔
”تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھی زندگی گزار سکتے ہو… صرف تم ہی اسے پسند نہیں کرتے وہ بھی کرتی ہے۔”
عمر اس بات پر کچھ کہنے کے بجائے صرف مسکرا دیا۔
”صبح دس گیارہ بجے کے قریب میں تمہیں فون کروں گا۔”
عباس نے اس کے کندھے کو ہلکا سا تھپتھپایا۔
”ایک بار پھر موضوع بدل رہے ہو تم۔ ٹھیک ہے تمہاری مرضی۔”
عمرجواب میں کچھ کہے بغیر اپنی کار میں بیٹھ گیا۔
٭٭٭