Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

علیزہ نے عباس کو فون کرنے کے بعد ایکسچینج سے جسٹس نیاز کا نمبر لیا۔ وہ اس نمبر کو ملا رہی تھی جب فون لائن اچانک ڈیڈ ہو گئی۔ وہ کچھ حیران ہوئی ، فون کچھ دیر پہلے بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا۔ اس نے فون ریسیوررکھ دیا۔ چند منٹوں کے بعد اس نے ریسیور اٹھایا۔ لائن اب بھی ڈیڈ تھی۔ یہ عارضی خرابی نہیں تھی جو ریسیور رکھ کر دوبارہ اٹھا لینے پر ٹھیک ہو جاتی۔ وہ کچھ بے چین ہونے لگی۔ وہ جلد از جلد جسٹس نیاز سے رابطہ کرنا چاہتی تھی۔
کچھ دیر وہ وہیں بیٹھی کچھ سوچتی رہی اور پھر ایک خیال آنے پر اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔ اپنا شولڈر بیگ نکال کر اس نے والٹ اندر ڈالا اور پھر جوتا بدل کر باہر نکل آئی۔ نانو کے کمرے سے اس نے دوسری گاڑی کی چابی لی۔ نانو اس وقت کمرے میں نہیں تھیں۔ وہ باہر لان میں تھیں۔ علیزہ باہر پور ٹیکو میں نکل آئی کار کو اسٹارٹ کرکے اس نے ریورس کرنا شروع کیا، لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ چوکیدار نے گیٹ نہیں کھولا بلکہ گیٹ کے پاس بنے چھوٹے سے کمرے سے نکل کر اس کی طرف آنے لگا۔ اس نے گاڑی روک دی۔
”علیزہ بی بی! آپ کہاں جا رہی ہیں؟” چوکیدار نے قریب آکر اس سے پوچھا۔
”کہاں جا رہی ہوں؟” وہ حیران ہوئی ”باہر جا رہی ہوں، تم گیٹ کھولو۔”
”علیزہ بی بی! مجھے نہیں پتا… بس کچھ دیر پہلے مجھے بتایا گیا تھا کہ میں کسی کو باہر نہ جانے دوں۔” چوکیدار نے اسے بتایا۔
”میں خود بات کرتی ہوں ان سے، دیکھتی ہوں یہ مجھے کیسے روکتے ہیں۔”
وہ تیز قدموں کے ساتھ گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔



گیٹ کی سائیڈ پر موجودہ چھوٹا گیٹ کھول کر اس نے باہر نکلنے کی کوشش کی، مگر وہ کامیاب نہیں ہوئی گیٹ کا بولٹ کھلتے ہی باہر موجود ایک پولیس گارڈ اس کے سامنے آگیا۔ وہ منہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
”آپ اندر چلی جائیں، باہر نہیں جا سکتیں۔” اس کی آواز میں سختی مگر لہجہ مؤدب تھا۔
”کیوں نہیں جا سکتی؟”
”ہمیں صاحب نے حکم دیا ہے کہ گھر سے کسی کو بھی باہر نکلنے نہ دیا جائے۔”
”کون سے صاحب نے حکم دیا ہے تمہیں؟”
”عباس صاحب نے۔ آپ پہلے ان سے بات کرکے اجازت لے لیں پھر ہم آپ کو باہر آنے دیں گے۔”
وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے اسے دیکھتی رہی۔ فون میں ہونے والی اچانک خرابی اب اس کی سمجھ میں آنے لگی تھی۔ عباس یقیناً اتنا کمزور نہیں تھا جتنا وہ سمجھ رہی تھی۔
”فون خراب ہے۔ میں ساتھ والے گھر سے فون کرکے عباس سے اجازت لے۔۔۔” پولیس گارڈ نے اس کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔
”آپ کہیں بھی نہیں جا سکتیں۔ عباس صاحب اگر آپ کو اجازت دینا چاہیں گے تو خود آپ سے رابطہ کریں گے یا ہدایات دے دیں گے۔ اس لئے بہتر ہے آپ اندر چلی جائیں۔”
اس کی آواز میں قطعیت تھی، علیزہ مزید بحث کئے بغیر واپس اندرآگئی۔ وہ شدید غصے کے عالم میں تھی۔ پاؤں پٹختے ہوئے وہ اندر لاؤنج میں چلی آئی، اندر آتے ہی اس نے وہ بیگ صوفے پر اچھال دیا جو وہ گاڑی سے نکال لائی تھی۔ اسے شدید بے بسی کا احساس ہو رہا تھا۔
چوکیدار نے نانو کو سارے واقعہ کی اطلاع دے دی۔ وہ چند منٹوں کے بعد اندر لاؤنج میں تھیں۔
”تم کہاں جانا چاہ رہی ہو علیزہ؟” انہوں نے آتے ہی پوچھا۔
”مارکیٹ تک جانا چاہ رہی تھی۔”
”کیوں؟”
”کچھ کام تھا نانو…! مگر عباس نے باہر موجود گارڈ سے کہا ہے کہ کوئی اندر سے باہر نہ جائے۔” اس نے برہمی سے کہا۔
”عباس نے کہا ہے تو کچھ سوچ کر ہی کہا ہو گا۔ تم فون پر اس سے بات کر لو۔” نانو اس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔
”فون لائن ڈیڈ ہے اور عباس، عباس کبھی کچھ بھی سوچ سمجھ کر کرنے کا عادی نہیں ہے۔”
”فون لائن ڈیڈ ہے؟ ابھی کچھ دیر پہلے تو بالکل ٹھیک تھی۔”
نانو فون کا ریسیور اٹھا کر اسے چیک کرنے لگیں۔ پھر کچھ مایوسی کے ساتھ انہوں نے ریسیور رکھ دیا۔ ”یہ کام نہیں کر رہا۔”

”یہ کام کر بھی کیسے سکتا ہے؟ یہ عباس کی وجہ سے بند ہے۔” علیزہ نے تلخی سے کہا۔
”فون کیوں بند کروایا ہے عباس نے؟” نانو کچھ فکر مند ہو گئیں۔
علیزہ کچھ کہتے کہتے رہ گئی، اسے اچانک خیال آیا تھا کہ نانو سے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ وہ انہیں پریشان کرنا نہیں چاہتی تھی۔
”نانو! آپ مجھے ساتھ والوں کے گھر بھجوائیں، میں وہاں سے فون کروں گی۔”
”تمہیں فون کرنا کہاں ہے؟”
”شہلا کو فون کرنا ہے۔” اس نے جھوٹ بولا۔
”صبح اس سے بات تو ہوئی تھی تمہاری۔”
”نہیں ہوئی تھی، میں نے فون بند کر دیا تھا۔”
”اتنا بے چین ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے ابھی کچھ دیر تک وہ خود آجائے۔”



نانو نے اسے سمجھایا، وہ سوچ میں پڑ گئی۔
”اچھا آپ مرید بابا سے کہیں، وہ ساتھ والوں کے گھر سے اسے فون پر یہاں آنے کے لئے کہیں۔”
اس کے ذہن میں ایک اور خیال آیا۔ نانو اسے جواب دینے کے بجائے مرید بابا کو پکارنے لگیں۔
”جواد صاحب کے گھر جاؤ اور شہلا کو فون کرکے یہاں آنے کے لئے کہو۔” مرید بابا کے آنے پر نانو نے اس سے کہا۔
”اس سے یہ بھی کہیں کہ اپنا موبائل فون لے کر آئے۔” علیزہ نے نانو کی ہدایات کے بعد کہا۔ مرید بابا سر ہلاتے ہوئے لاؤنج میں نکل گئے۔ مگر ان کی واپسی چند منٹوں کے بعد ہی ہو گئی۔
”گیٹ پر موجود پولیس باہر جانے نہیں دے رہی۔ ” انہوں نے آتے ہی اطلاع دی۔
”آپ انہیں بتا دیتے کہ آپ کو ضروری کام سے نانو نے بھیجا ہے۔ ” علیزہ ایک بار پھر بے چین ہو گئی۔
”میں نے ان سے کہا تھا۔ مگر انہوں نے کہا کہ گھر سے کوئی بھی باہر نہیں جائے گا۔”
علیزہ نے بے اختیار اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔
”ٹھیک ہے، آپ اپنا کام کریں۔” نانو نے مرید بابا کو ہدایت دی۔
ان کے جانے کے بعد انہوں نے علیزہ سے کہا۔ ”تم شہلا کا انتظار کرو، جب فون نہیں ملے گا تو وہ خود ہی یہاں آجائے گی۔”
انہوں نے جیسے علیزہ کو تسلی دی ”اور اگر باہر موجود پولیس نے اسے بھی اندر آنے نہ دیا تو…؟” وہ سوالیہ لہجے میں ان سے بولی۔
”تو، تو۔۔۔” نانو کو کوئی جواب نہیں سوجھا۔
”پتہ نہیں یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے، اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی اور اب یک دم۔”
انہوں نے بڑبڑاتے ہوئے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ علیزہ نے ان کی بات پر غور نہیں کیا۔ وہ اپنا ناخن کاٹتے ہوئے کچھ سوچنے میں مصروف تھی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!