Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”آپ کے بیٹے کی وجہ سے بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہو چکا ہوں۔” چیف منسٹر نے ایاز حیدر سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی چیف منسٹر ہاؤس پہنچے تھے۔
”مجھے حیرت ہو رہی ہے آپ کی بات پر، عباس کا سروس ریکارڈ شاندار ہے۔ اس نے ہمیشہ اپنے فرائض کو بڑی ایمانداری سے سر انجام دیا ہے اور وہ آئندہ بھی ایسا ہی کرے گا۔ آپ خود کئی بار اس کی تعریف کر چکے ہیں۔ ” ایاز حیدر نے بڑے خوشگوارانداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ دونوں اس وقت وہاں اکیلے تھے اور اب صوفوں پر بیٹھ چکے تھے۔
”مجھے اس کی قابلیت یا ذہانت پر کوئی شبہ نہیں مگر دو دن پہلے جو کچھ ہوا ہے، میں عباس حیدر جیسے آفیسر سے اس کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ ہائی کورٹ کے ایک جج کے بیٹے کو اس طرح گھر سے اٹھا کر مار دینا اور پھر یہ کہنا کہ وہ پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔”
”سر میری عباس سے اس معاملے میں تفصیلاً بات ہوئی ہے۔ وہ لڑکا اسی رات واقعی پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ ڈکیتی کی کوشش…۔” چیف منسٹر نے ایاز حیدر کی بات کاٹ دی۔
”میرے سامنے وہ بیان نہ دہرائیں جو اخباروں کو دیا گیا ہے۔ اس کا باپ کہہ رہا ہے کہ گھر سے سادہ کپڑوں میں پولیس اہلکار اس کے بیٹے کو اٹھا کر لے گئے۔”



”جسٹس نیاز یہ نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے… ایک جج کا بیٹا ایک جرم کرتے ہوئے اس طرح مارا جائے تو اس کی ساکھ کس حد تک متاثر ہو گی۔ آپ تو اچھی طرح اس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔”
ایاز حیدر نے بڑے پر سکون انداز میں کہا۔ چیف منسٹر جواب میں کچھ بولے بغیر خاموشی سے انہیں گھورتے رہے۔
”جسٹس نیاز جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں اور یہ ان کی مجبوری ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس جھوٹ کی بنا پر آپ عباس کو سزا دیں۔ میں یہ بات اس لئے نہیں کہہ رہا کہ عباس میرا بیٹا ہے۔ وہ میرا بیٹا بعد میں ہے، آپ کی انتظامیہ کا ایک رکن پہلے ہے اور اس کی ایمانداری اور فرض شناسی سب پر بہت واضح ہے میں جانتا ہوں اپ اپنے ایک اچھے اور مستعد آفیسر کو کبھی کھونا نہیں چاہیں گے۔”
ایاز حیدر بڑے نپے تلے لفظوں میں اپنی بات آگے تک پہنچا رہے تھے۔ چیف منسٹر اب بھی کچھ کہے بغیر ان کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
”عباس نے کوئی غلط کام کیا ہوتا تو میں کبھی یہاں نہ بیٹھا ہوتا۔ آپ اس کے ساتھ جو چاہے کرتے۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا، لیکن اب عباس نے جو بھی کیا ہے، وہ لا اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کے لئے کیا ہے، اور اگر عباس حیدر جیسے آفیسرز کو سزا دی جائے گی تو اس سے ساری پولیس فورس کا مورال ڈاؤن ہو گا۔ خود عباس اس سارے واقعہ پر بہت اپ سیٹ ہے، وہ تو ریزائن کر دینا چاہتا تھا مگر میں نے زبردستی اس سے روکا وہ کہہ رہا تھا کہ پریس تو ہمیشہ پولیس کا نیگیٹو امیج ہی لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے، مگر جب اوپر والے بھی اپنے آفیسرز کو سپورٹ کرنے کے بجائے ان کے ایکشن پر شک و شبہ کا اظہار کریں تو پھر کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نے اسے خاصا سمجھایا۔ مگر وہ پھر بھی بہت بد دل ہو گیا ہے اس سارے واقعہ پر، وہ مجھ سے شکایت کر رہا تھا کہ آپ نے اس معاملہ میں اس کی حمایت کرنے کے بجائے انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ اس کا واضح مطلب تو یہی ہوا کہ آپ کو جسٹس نیاز کی بات زیادہ وزنی لگ رہی ہے۔ اور وہ کہہ رہا تھا کہ آپ کے اس حکم سے اس کی کریڈ یبلٹی متاثر ہوئی ہے۔”



چیف منسٹر ایاز حیدر کی بات سنتے ہوئے مسلسل سگار پی رہے تھے۔ ان کا چہرہ بالکل بے تاثر تھا۔ ایاز حیدر کی باتیں ان پر اثر کر رہی تھیں یا نہیں، کم از کم ایاز حیدر کو ان کے چہرے سے یہ جاننے میں کوئی مدد نہیں مل رہی تھی ۔ وہ کچھ دیر اور بات کرتے رہے پھر جب وہ خاموش ہو گئے توچیف منسٹر نے کچھ آگے جھکتے ہوئے سامنے پڑی ٹیبل پر موجود ایش ٹرے میں سگار کی راکھ جھاڑی۔
”عباس کے خلاف انکوائری کا حکم میں نے نہیں دیا۔” وہ رکے پھر بولے۔
”میں نے اس پورے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور یہ آرڈر میں نے کسی خاص شخص کو فوکس (مرکز) بنا کرکے نہیں دیا۔”
”سر! بات ایک ہی ہو جاتی ہے۔ عباس کے خلاف انکوائری کروائی جائے یا پھر اس واقعے کے بارے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ” ایاز حیدر نے کہا۔
”انکوائری تو مجھے کروانا ہی ہے۔ جسٹس نیاز نے Publically (عوام میں) آپ کے بیٹے کو مجرم ٹھہرایا ہے۔”
”آفیشلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس واقعے پر احتجاج کیا ہے۔”
”جسٹس نیاز کے الزامات بے بنیاد ہیں، میں آپ سے پہلے… ” چیف منسٹر نے ان کی بات کاٹ دی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!