Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”ان کے الزامات اتنے بھی بے بنیاد نہیں ہیں۔ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹرز سے تفصیلی بات ہوئی ہے میری۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ موت کا وقت وہ نہیں تھا جو انہوں نے دیا ہے۔ جسٹس نیاز نے جس وقت امتنان صدیقی سے بات کی، اس وقت ان کا بیٹا زندہ تھا اور ان کے فون پر امتنان صدیقی سے بات کرنے کے تقریباً ایک گھنٹے کے بعد اس کی موت ہوئی۔”
چیف منسٹر اب ایاز حیدر کے چہرے پر نظریں جمائے بول رہے تھے۔ ایاز حیدر کے چہرے کی رنگت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ بالکل پر سکون انداز میں چیف منسٹر کی بات سن رہے تھے۔
”ڈاکٹرز نے یہ بھی اسے بتایا ہے کہ ان چاروں کی موت بہت قریب سے گولیاں لگنے سے ہوئی ہے۔ زیادہ سے زیادہ سات یا آٹھ فٹ کے فاصلے سے اور کچھ گولیاں کم فاصلے کی وجہ سے ان کے جسم کے آرپار بھی ہو گئیں۔”
چیف منسٹر ایک بار پھر سگار کی راکھ جھاڑ رہے تھے۔ ایاز حیدر پلکیں جھپکائے بغیر ان کا چہرہ دیکھ رہے تھے، یوں جیسے وہ انہیں کوئی بہت دلچسپ کہانی سنانے میں مصروف تھے۔
”اور یہ جان کر بھی آپ خاصے محظوظ ہوں گے کہ چاروں کے جسم سے ملنے والی گولیاں ایک ہی رائفل سے چلائی گئی ہیں۔ اب پولیس فورس میں کتنے ماہر نشانہ باز ہیں۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی۔ کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ ایک پولیس مقابلے کے چاروں مجرم ایک ہی پولیس والے کا نشانہ بنے؟”
چیف منسٹر کے چہرے پر اب ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔



”ڈاکٹرز کے مطابق وہ چند منٹوں کے فرق سے تقریباً ایک ہی وقت مرے ہیں اور پولیس کا کہنا ہے مقابلہ دو گھنٹے جاری رہا اور چار مختلف جگہوں پر انہیں شوٹ کیا گیا ایک رائفل ہے؟ چلو مان لیتے ہیں مگر پھر کم از کم موت کے وقت میں دس پندرہ نہیں تو آٹھ دس منٹ کا فرق ہوتا۔” ان کی آواز میں اب کچھ تلخی جھلکنے لگی تھی۔
”اور ڈاکٹر ز کا یہ کہنا ہے کہ جسٹس نیاز کے بیٹے کو موت سے پہلے اچھے خاصے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کی پسلی کی کچھ ہڈیوں میں فریکچرز تھے، اور جسم پر چوٹوں کے کچھ نشانات بھی تھے۔ اب آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟” انہوں نے کچھ طنزیہ انداز میں ایک اور کش لیتے ہوئے کہا۔
”میں صرف یہی کہوں گا کہ ایسے ڈاکٹرز پر کیس چلنا چاہئے، انکوائری ان کی ہونی چاہئے… جو ڈاکٹر پہلے ایک بیان دے رہے ہیں پھر دوسرا۔ ان پر اعتماد کیسے کیا جا سکتا ہے؟ آپ نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انہوں نے سب کچھ کیوں نہیں بتایا۔”
ایاز حیدر نے اسی پر سکون انداز میں کہا، جس پر سکون انداز میں وہ چیف منسٹر کی ساری گفتگو سنتے رہے تھے۔
”پوچھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں عباس حیدر نے پوسٹ مارٹم رپورٹ بدلنے پر مجبور کیا۔”
ایاز چیف منسٹر کی بات پر بے اختیار ہنسے۔
”مگر سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ عباس نے ایسے کیوں کیا؟”
”اسی سوال کا جواب لینے کے لئے تو میں نے آپ کو یہاں بلایا ہے۔ آپ بتایئے عباس نے یہ سب کیوں کیا؟”
”آپ کی عباس سے بات ہو چکی ہے؟”
”ہاں۔”
”یہ سوال آپ اس سے کر سکتے تھے سر! وہ زیادہ بہتر طریقے سے آپ کو ان سب باتوں کے بارے میں بتاتا۔”
”ڈاکٹرز سے میری بات چند گھنٹے پہلے ہوئی ہے۔ جبکہ عباس سے بات کل ہوئی تھی۔ اگر آپ یہاں نہ آئے ہوتے تو اس وقت عباس ہی یہاں بیٹھاہوتا۔ میں آپ سے سچ سننا چاہتا ہوں۔ کیا جسٹس نیاز کی فیملی کے ساتھ آپ کے کوئی اختلافات تھے؟”
”نہیں ان کی فیملی کے ساتھ ہمارے کیا اختلافات ہو سکتے ہیں۔ میں تو ان کی فیملی کو ٹھیک طرح سے جانتا تک نہیں ہوں۔ ان کا رورل بیک گراؤنڈ ہے، ہمارا اربن ہے پھر کسی اختلاف کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ میرا بیٹا کسی کو بھی ایسے ہی اٹھا کر مار دے۔”
ایاز حیدرنے صاف لفظوں میں انکار کرتے ہوئے کہا۔
چیف منسٹر نے ایک گہرا سانس لیا اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگالی۔



”اب باتیں کچھ کھل کر ہوں گی۔ یہ بات تو صاف طے ہے کہ عباس نے ان چاروں کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں مارا ہے۔ کیوں مارا ہے۔۔۔۔؟”
”انہوں نے کچھ توقف کیا اور سامنے ٹیبل پر پڑی ایک فائل کو کھول کر اس میں سے ایک ایڈریس پڑھنے لگے۔ ایاز حیدر کے چہرے پر پہلی بار تناؤ کی کیفیت نظر آنے لگی۔ وہ ایڈریس اس گھر کا تھا جہاں علیزہ نانو کے ساتھ رہ رہی تھی۔
”یہ ایڈریس اس گھر کا ہے جہاں آپ کی والدہ آپ کے والد کے انتقال کے بعد رہ رہی ہیں۔ ان کے ساتھ آپ کی ایک بھانجی بھی رہتی ہے۔… علیزہ سکندر۔”
وہ خاموش ہو گئے اور فائل میں موجود کاغذات کو دیکھتے رہے، پھر انہوں نے وہ فائل واپس ٹیبل پر رکھ دی اور ایاز حیدر کو دیکھنے لگے۔
”جس رات یہ واقعہ ہوا تھا اس رات آپ کی یہ بھانجی اپنی ایک دوست کے ساتھ کسی کنسرٹ سے واپس آرہی تھی۔ جب ان چاروں لڑکو ں نے ان دونوں کا پیچھا کیا۔ آپ کی بھانجی کی دوست اپنے گھر چلی گئی، لیکن جب آپ کی بھانجی گھر جا رہی تھی تو اس کا ایک بار پھر پیچھا کیا گیا۔ پولیس ہیڈکوارٹرز میں یکے بعد دیگرے کئی کالز آئیں… چند کالز آپ کی والدہ نے کیں کچھ اس گھر سے کی گئیں جہاں آپ کی بھانجی چھپ گئی تھی۔”
وہ بڑی روانی سے سب کچھ بتاتے جا رہے تھے۔ ایاز حیدر کو ان کی معلومات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی، پولیس صرف عباس حیدر کی وفادار نہیں ہو سکتی تھی۔
”جس گھر میں آپ کی بھانجی چھپی تھی۔ وہاں کوئی ڈکیتی نہیں ہو رہی تھی، البتہ وہ لڑکے آپ کی بھانجی کے پیچھے ضرور گئے تھے۔ عباس حیدر کے ساتھ اس دن عمر جہانگیر بھی تھا اور اس پورے آپریشن کے دوران اس کے ساتھ رہا۔ عمر جہانگیر کو تو جانتے ہیں نا آپ؟”چیف منسٹر نے مسکرا کر عجیب سے انداز میں کہا اور پھر بات جاری رکھی۔ ”عباس نے اس پورے علاقے کا گھیراؤ کر لیا اور اس گھر تک بھی پہنچ گیا۔ وہ لڑکے اس وقت تک فرار ہو چکے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے یا اتنا ہی کافی ہے؟ یہ ضرور یاد رکھیں کہ آپ کی بھانجی کی کار اس وقت بھی پولیس ورکشاپ میں ہے اور اس گھر پر اس وقت بھی پولیس گارڈ لگی ہوئی ہے۔”



انہوں نے بڑے محظوظ ہوتے ہوئے ایاز حیدر کو دیکھ کر پوچھا۔ ایاز حیدر نے ایک گہرا سانس لیا۔
”میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا عباس نے آپ کی بھانجی کی وجہ سے ان چاروں کو مارا تھا۔ کیا صرف اس لئے کہ ان چاروں نے آپ کی بھانجی کا پیچھا کیا تھا یا پھر اس لئے کہ آپ کی بھانجی ان میں سے کسی کے ساتھ انوالوڈ تھی؟ خاص طور پر جسٹس نیاز کے بیٹے کے ساتھ کیونکہ اس کے علاوہ باقی کسی پر اتنا تشدد نہیں کیا گیا تھا۔ آپ کو یہاں بلانے کی وجہ یہی تھی کہ یہ باتیں آمنے سامنے ہوسکیں۔ عباس صورت حال کی سنگینی کو انڈر اسٹیمیٹ کر رہا ہے۔ آپ یقیناً ایسا نہیں کریں گے۔ اب یہ آپ کو طے کرنا ہے کہ آپ ابھی بھی مجھے سچ بتائیں گے یا پھر وہی سب باتیں دہرائیں گے جو پہلے دہرا رہے ہیں اور یہ بات ذہن میں ضرور رکھیں کہ ایسا کرنے کی صورت میں، میں انکوائری ٹیم کو پوری اتھارٹی دے دوں گا اور جو کچھ اس وقت میرے سامنے اس فائل میں پڑا ہے، وہ یقیناً ان تک بھی ضرور پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد آپ اور آپ کی فیملی کو کیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
کیا آپ کی فیملی اس طرح کے کسی اسکینڈل کو افورڈ کر سکے گی؟ عباس حیدر کا سوچئے اس کا کیا ہو گا۔ عمر جہانگیر وہ بھی بچ نہیں سکے گا۔”
وہ زیرک سیاست دان بیورو کریسی کے ایک مہرے کو پھانسنے کے لئے اپنے پتے بڑی ہوشیاری سے کھیل رہا تھا۔
دوسری طرف ایاز حیدر اس کی باتوں کو غور سے سنتے ہوئے سارے حساب کتاب میں مصروف تھے۔
”جسٹس نیاز جس سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، آپ اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔ اچھی طرح نہ بھی جانتے ہوں تو یہ ضرور آپ کے علم میں ہو گا کہ اسمبلی کے بہت سے ممبرز کی پشت پناہی حاصل ہے انہیں۔ ان کی بات نہ سننے پر مجھے اسمبلی میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور جسٹس نیاز کا مطالبہ ہے، کہ آپ کے بیٹے کو معطل کیا جائے۔ اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ میں کس بنیاد پر ایسا کرنے سے انکار کروں۔ خاص طور پر یہ جاننے کے بعد کہ آپ کے بیٹے نے ایک غلط کام کیا ہے۔”
”میرے بیٹے نے کوئی غلط کام نہیں کیا، نہ عباس نے نہ ہی عمر جہانگیر نے۔ آپ کو ملنے والی اطلاعات ٹھیک ہیں۔ ان چاروں کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا اور یہ اس لئے کیا گیا تھا کیونکہ۔۔۔”
ایاز حیدر نے چیف منسٹر کی بات سننے کے بعد بڑے دھیمے اور مستحکم لہجے میں بات کرنا شروع کی۔ چیف منسٹر خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!