”برین واشنگ مائی فٹ۔ میں کوئی پانچ سال کا بچہ نہیں ہوں جس کی برین واشنگ کر دی گئی ہے۔ اس رات ان چاروں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ہم دونوں نے مل کر طے کیا تھا۔”
وہ دم بخود اسے دیکھتی رہی وہ بڑے اطمینان سے اسے بتا رہا تھا۔
”اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہمارے پاس نہیں تھا۔”
”آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ عباس ان لوگوں کو لاک اَپ میں بند کر دے گا۔ ان پر کورٹ میں کیس چلے گا۔”اس نے شکستہ آواز میں کہا۔
”میں نے جھوٹ بولا تھا۔”
وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی۔
”علیزہ سکندر کو کسی بھی عمر میں بے وقوف بنانا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔” اس نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔” میں لوگوں کو جانچنے اور پرکھنے میں آج بھی اتنی ہی ناکام ہوں جتنا پہلے تھی۔ کوئی ڈگری ، کوئی تجربہ میری سمجھ داری میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ میں کبھی بھی لوگوں کے لفظوں میں چھپے ہوئے اصلی مفہوم تک نہیں پہنچ سکتی یا شاید عمر جہانگیر وہ شخص ہے جس کے لفظوں کو میں کبھی جانچنا نہیں چاہوں گی۔”
”یہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ آپ مًجھے صاف صاف بتا سکتے تھے۔”
”تاکہ جو حماقت تم اب کر رہی ہو، وہ اسی وقت کرنا شروع کر دیتیں۔” اس کی آواز میں اس بار ترشی تھی۔
”کیا کرنا شروع کر دیتی؟”
”تم بہت اچھی طرح جانتی ہو کہ تم کیا کر رہی ہو؟” اس کی آواز میں تنبیہ تھی۔
”نہیں، میں نہیں جانتی میں کیا کر رہی ہوں۔ آپ بتادیں۔”
”عباس کو فون پر کیا کہا تھا تم نے؟” وہ چند لمحے اسے گھورتے رہنے کے بعد بولا۔
علیزہ کو اب کوئی خوش فہمی باقی نہیں رہی… اس کا ایک اور اندازہ بالکل غلط ثابت ہو گیا۔ وہ جان گئی تھی وہ یہاں کس کے لئے آیا تھا ۔ عباس کو بچانے کے لئے یا پھر شاید اپنے آپ کو بچانے کے لئے۔
”اگر آپ کو یہ پتا ہے کہ میں نے عباس کو فون کیا تھا تو پھر یہ بھی پتا ہو گا کہ کیوں کیا تھا۔” اس نے اپنی آواز پر حتی المقدور قابو پاتے ہوئے کہا۔
”تم اپنے لئے اور دوسروں کے لئے پرابلمز پیدا کرنے کی کوشش مت کرو۔” اس نے تیز آواز میں اس سے کہا۔
”میں کسی کے لئے پرابلمز پیدا نہیں کر رہی۔ میں صرف وہ کر رہی ہوں جسے میں ٹھیک سمجھتی ہوں۔”
”کیا ٹھیک سمجھتی ہو تم۔ خود کو اور خاندان کو اسکینڈلائز کرنا۔۔۔”
”میں کسی کو اسکینڈلائز نہیں کر رہی ہوں۔” اس نے عمر کی بات کاٹ دی۔ ”اگر آپ کو اس چیز کا خوف تھا تو آپ کو یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہئے تھا۔”
”اچھا یہ نہیں کرنا چاہئے تھا؟ تو پھر کیا کرنا چاہئے تھا، تم بتاؤ گی مجھے؟”
اس کی آواز میں طنز تھا اور وہ اسے بخوبی محسوس کر سکتی تھی۔
”آپ کو وہی کرنا چاہئے تھا جو مناسب تھا، جو جائز تھا۔ آپ کو انہیں صرف لاک اپ میں بند کر دینا چاہئے تھا۔ان پر کورٹ میں کیس چلتا پھر جو سزا کورٹ انہیں دیتی آپ اس پر عمل کرتے۔”
”لاک اپ میں بند کرنا چاہئے تھا؟ کتنے گھنٹوں کے لئے؟”
”کیا مطلب؟”
”تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ وہ کتنے با اثر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں لاک اپ میں بند کیا جاتا اور رات گزرنے سے پہلے انہیں چھڑوا لیا جاتا، کسی کے ایک فون پر ، کسی ضمانت یا کارروائی کے بغیر۔”
”یہ کیسے ممکن ہے۔ آپ لوگ ایف آئی آر رجسٹر کرتے تو وہ کیسے رہا ہو سکتے تھے۔”
”کون سی ایف آئی آر؟ اور کیا حیثیت ہے ایک ایف آئی آر کی؟ جاننا چاہو گی؟”
عمر نے ترش لہجے میں کہتے کہتے سائیڈ ٹیبل پر پڑے ہوئے پیپرز میں سے ایک کو لے کر برق رفتاری سے پھاڑتے ہوئے قالین پر اچھال دیا۔
”یہ حیثیت ہے ایک ایف آئی آر کی ۔ جو کام میں نے یہاں تمہارے سامنے بیٹھ کر کیا ہے وہ ایسے با اثر خاندانوں کے لوگ پولیس اسٹیشن میں بیٹھ کر کرتے ہیں۔”
وہ دم سادھے قالین پر گرتے ان ٹکڑوں کو دیکھتی رہی۔
”کاغذ کے ایک ردی ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں ہوتی، ایف آئی آر کی۔ کون سا خاندان اپنے سپوتوں کا نام پولیس اسٹیشن کے ریکارڈ میں آنے دے گا۔ چاہے انہوں نے جو بھی کیا ہو، یہ خاندان کی ساکھ اور مستقبل کا معاملہ ہوتا ہے۔ کوئی ان چیزوں کو داؤ پر نہیں لگا سکتا۔” وہ رسانیت سے بولتا جا رہا تھا۔
”اور اس صورت حال سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو مار دیا جائے۔ ایک جعلی پولیس مقابلے میں ۔ اس طرح سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ” وہ طنز سے بولی۔
”سب کچھ نہ سہی بہت کچھ۔”
”آپ کی کوئی بات مجھے قائل نہیں کر رہی۔ سوچے سمجھے بغیر ایک غلط کام کرنے کے بعد آپ اسے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کہہ کر ایف آئی آر کے باوجود بھی وہ چھٹ جاتے۔ آپ ان کو نہ رہا ہونے دیتے۔ اتنا اثر و رسوخ تو ہمارے خاندان کا بھی ہے، ان چاروں کو کورٹ تک لے جانا آپ کے لئے کوئی مشکل یا نا ممکن کام نہیں تھا۔” وہ اس سے کہہ رہی تھی۔
”اچھا لے جاتے ان چاروں کو ہم کورٹ میں، اس کے بعد کیا ہوتا؟” وہ چیلنج کرنے والے انداز میں اس سے پوچھ رہا تھا۔
”ان پر کیس چلتا کورٹ انہیں سزا دیتی۔”
”کون سے یو ٹوپیا میں رہ رہی ہو تم علیزہ! یہاں اس ملک میں ایک با اثر خاندان کے فرد پر ایک لڑکی کا پیچھا کرنے پر کیس چلتا۔ جب یہ ہونا شروع ہو جائے گا تو پھر ایسے لوگ پولیس مقابلوں میں مارے نہیں جائیں گے پھر وہ واقعی کورٹس تک پہنچائے جائیں گے۔” اس نے اب صوفے کی پشت سے ٹیک لگالی۔
”یہاں اب کورٹس میں ججز انصاف کرتے نہیں، انصاف بیچتے ہیں۔ جیب میں روپیہ اورما تھے پر بڑے خاندان کی اسٹمپ ہونی چاہئے پھر وکیل کی ضرورت نہیں پڑتی۔ نہ گواہوں کی ، نہ ثبوتوں کی پھر جج خود آپ کا ہو جاتا ہے۔ ہائی کورٹ کے جج کے بیٹے کو کون سا جج سزا دیتا۔”
وہ اب عجیب سے انداز میں مسکرا رہا تھا۔