Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”چیمبر آف کامرس کے ایک عہدے دار کے بیٹے کو کون سلاخوں کے پیچھے رکھ سکتا ہے اور کتنی دیر۔”
”پھر بھی آپ کوشش تو کر سکتے تھے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق آپ کو کس نے دیا؟” وہ اس کی کسی بات سے قائل نہیں ہو رہی تھی۔
”قانون کو ہاتھ میں ا س لئے لینا پڑا کیونکہ قانون ان چاروں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ چاروں اسی رات رہا کروا لئے جاتے اور اگر کسی طرح ان پر کیس کر بھی دیا جاتا تو کس طرح جیتا جا سکتا تھا، ثبوت کیا تھے ہمارے پاس؟”
وہ بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”ثبوت تھے ہمارے پاس۔” اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”کون سے ثبوت؟ پولیس جب گھر پر پہنچی تو ان چاروں میں سے کوئی بھی وہاں نہیں تھا۔”
”لیکن اس گھر کے لوگوں نے انہیں دیکھا… جب وہ زبردستی اندر آئے تھے۔”
”اس گھر کے لوگ؟” وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا۔ ”اس گھر کے کتنے لوگ تمہارے لئے گواہی دینے کورٹ میں آئیں گے ، ایک بھی نہیں۔”
”آپ انہیں ایسا کرنے کے لئے پریشرائز کر سکتے ہیں۔”
”اور یہی کام نہ کرنے کے لئے ان چاروں کے گھر والے بھی انہیں پریشرائز کر سکتے تھے۔”
”ٹھیک ہے وہ گواہی نہ دیتے ، میں تو دے سکتی تھی۔ میں پہچانتی تھی ان چاروں کو۔”
وہ اس کی بات پر ایک بار پھر ہنسا۔



”تم کون ہو علیزہ سکندر؟ کیا حیثیت رکھتی ہے تمہاری گواہی۔ جانتی ہو وہ کن اداروں میں پڑھ رہے تھے؟ کورٹ تم سے پوچھتی کہ چار اعلیٰ حسب و نسب کے نوجوانوں نے آخر تمہارا ہی کیوں پیچھا کیا ۔ ہو سکتا ہے تم نے ان کو ترغیب دی ہو؟ ہو سکتا ہے وہ کہہ دیتے کہ وہ تمہیں پہلے ہی جانتے ہیں اور ان میں سے کسی کا تمہارے ساتھ افئیر چل رہا تھا۔ جب اس نے تمہارے ساتھ تعلقات ختم کئے تو تم نے اسے سزا دینے کے لئے یہ سب کچھ پلان کیا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ صاف صاف کہہ دیتے کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا، وہ تمہیں جانتے تک نہیں اور رات وہ چاروں اپنے اپنے گھر میں تھے، دو کو تو ہم نے بھی گھر سے ہی اٹھایا۔ یا پھر ہو سکتا تھا کہ ان کے خاندان یہ کہتے کہ یہ ان کے کسی دشمن کی سازش ہے، کوئی ان کی ریپوٹیشن خراب کرنا چاہتا ہے۔ تم کیسے کاؤنٹر کرتیں ان سب چیزوں کو ، کورٹ پہلی ہی پیشی میں ان چاروں کو بری کر دیتا۔ ”با عزت بری” اور اس کے بعد تم کہاں پر کھڑی ہوتیں؟”
وہ کسی ترحم کے بغیر بڑی بے رحمی اور سفاکی سے اسے سب کچھ سنا رہا تھا۔
”ٹھیک ہے کورٹ انہیں سزا نہ دیتی، مگر سب کچھ جائز طریقہ سے تو ہوتا، غلط طریقے سے تو نہیں۔”
”اور اس جائز طریقے کا جو خمیازہ تم کو بھگتنا پڑتا اس کا اندازہ ہے تمہیں۔ جو لڑکے اتنی دیدہ دلیری کے ساتھ تمہارے نام پتہ سے واقف نہ ہونے کے باوجود تمہارا اس طرح پیچھا کر رہے تھے۔ وہ تمہارے بارے میں جاننے کے بعد تمہیں چھوڑ دیتے۔ تم ان کو کورٹ میں لے کر جاتیں اور وہ اس کے بعد تمہیں بخش دیتے۔”
”آپ عباس کی طرح Hypothetical(فرضی) باتیں نہ کریں۔ وہ کیا کر دیتے، کیا کر سکتے تھے۔ یہ ہو جاتا وہ ہو جاتا حقیقت تو یہی ہے کہ انہوں نے مجھے کوئی نقصان نہ پہنچایا۔”
”عباس ٹھیک کہہ رہا تھا، تم سچ مچ حواس کھو چکی ہو۔ ” عمر بے اختیار جھلایا۔
علیزہ نے اسے دیکھا۔ ”یہ جو اتنا لمبا چوڑا بیان دے رہے ہیں آپ، اس کے بجائے آپ صرف یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ عباس اور آپ کے لئے یہ انا کا مسئلہ بن گیا تھا۔ وہی میل شاؤنزم جو یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی فیملی کی عورت کو ایسے کسی کرائسس سے گزرنا پڑے۔ آپ کی نسبت عباس زیادہ صاف گو ہے۔ جس نے واضح طور پر اس بات کا اقرار کیا۔ آپ صرف ایک کے بعد دوسری کے بعد تیسری وضاحت پیش کر رہے ہیں۔ آپ بھی عباس کی طرح یہ اعتراف کر لیں کہ یہ صرف Family Pride (خاندانی انا) تھی جسے Intact (قائم) رکھنے کے لئے آپ نے یہ سب کیا۔”
عمر نے اس کی بات کے جواب میں بڑے واشگاف انداز میں کہا۔



”او کے، تم ایسا سمجھتی ہو تو ایسا ہی سہی۔ ہاں میں بھی یہ برداشت نہیں کر سکا کہ کوئی میری فیملی کی کسی عورت کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرے ، کیا یہ کافی ہے تمہارے لئے؟”
”کیا وہی عمر ہیں آپ، جو چند ماہ پہلے شہباز منیر کے موت پر واویلا کر رہا تھا اور آج وہ خود چارانسانوں کو مارنے کے بعد بھی ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کر رہا۔ کیا انکل ایاز کے نقش قدم پر چل رہے ہیں آپ بھی؟”
اس نے تلخی سے کہا۔
”اس وقت شہباز منیر کی بات نہیں ہو رہی۔” عمر نے اسے ٹوک دیا۔
”کیوں نہیں ہو رہی؟ ہونی چاہئے۔ اگر آپ کو ان چاروں کو مارنا ٹھیک لگا ہے تو ہو سکتا ہے اس وقت انکل ایاز کو بھی شہباز کو مارنا ٹھیک لگا ہو۔ ہر شخص اپنے ہر ایکشن کو حق بجانب ثابت کر سکتا ہے۔ کیا میں نے ٹھیک کہا؟”
”ہاں ہو سکتا ہے، اس وقت شہباز کا مارا جانا ٹھیک ہو۔ ہو سکتا ہے انکل ایاز نے ایک ٹھیک قدم اٹھایا ہو۔” وہ اس کے جواب پر دنگ رہ گئی۔
”اور تم… تم وہ شخص تھے ، جس کی وجہ سے وہ مارا گیا۔” وہ بری طرح مشتعل ہو گئی۔ پہلی بار اس نے عمر کو آپ کے بجائے تم کہہ کر مخاطب کیا تھا اور اس تبدیلی نے عمر کو متاثر نہیں کیا۔
”اور تم وہ شخص تھے جو مگرمچھ کی طرح اس کی موت پر آنسو بہا رہے تھے، اور آج تم یہ کہہ رہے ہو کہ اس کی موت صحیح تھی۔ تم کو شرم آنی چاہئے۔” وہ صوفے سے اٹھ گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!