Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”تم سب لوگ ایک جیسے ہوتے ہو۔ دوسروں کو گدھوں کی طرح نوچنے والے ، اپنا حصہ لے کر اطمینا ن سے بیٹھ جانے والے۔ بس یہ ہے کہ تم میں سے کچھ کے دانت شروع میں نظر آجاتے ہیں، کچھ کے بہت دیر میں۔” وہ اب بلند آواز میں بول رہی تھی۔
”میں تم سے یہ سننے نہیں آیا کہ میں کون ہوں یا کیا ہوں۔ میں تمہیں صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ تم جسٹس نیاز کو فون نہیں کروگی۔”
عمر نے اس کے ردعمل کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”میں جسٹس نیاز کو فون کروں گی۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں۔ تم یا عباس کب تک مجھے یہاں قید کر کے رکھ سکتے ہو۔ چند دن؟ چند ہفتے؟ چند مہینے؟ چند سال؟ کب تک، آخر کب تک ۔ مجھے جب یہ موقع ملے گا تو سب سے پہلا کام یہی کروں گی۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ تم لوگ مجھ سے جان چھڑانے کے لئے مجھے بھی مار ڈالو۔ شہباز کی طرح ، ان چاروں لڑکوں کی طرح، کسی پولیس مقابلے میں کسی بھی طرح پھر تم لوگوں کو آسانی ہو جائے گی۔”



کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی۔ وہ دونوں اب چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ اس خاموشی کو عمر نے توڑا۔
”تم جسٹس نیاز کو ضرور بتاؤ گی۔”
”ہاں میں ضرور بتاؤں گی۔”
وہ اسے دیکھتا رہا پھر کچھ بھی کہے بغیر بے تاثر چہرے کے ساتھ اس نے موبائل اس کی طرف بڑھا دیا۔ وہ یک دم گڑ بڑا گئی۔
”ابھی بتا دو فون نمبر تو ضرور ہو گا تمہارے پاس۔ ہچکچانے کی ضرورت نہیں ہے لو، نمبر ملاؤ اور بات کرو۔ انہیں بتاؤ کہ ہم نے ان کے بیٹے کے ساتھ کیا کیا ہے۔”
اس کا لہجہ عجیب تھا۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتی رہی۔
”میں نمبر ملا دوں۔” وہ اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر خود نمبر ملانے لگا۔
”ہیلو میں عمر جہانگیر ہوں، جسٹس نیاز سے بات کروائیں۔”
وہ اب کال ملا کر آپریٹر سے کہہ رہا تھا۔ آپریٹر سے بات کرنے کے بعد اس نے فون علیزہ کی طرف بڑھا دیا۔اس بار علیزہ نے کچھ کہنے کی بجائے جی کڑا کراس سے موبائل پکڑ لیا۔
کچھ دیر بعد جسٹس نیاز لائن پر تھے اور وہ ان سے بات کر رہی تھی۔ اس نے انہیں اس رات کے تمام واقعات سے آگاہ کر دیا پھر اس نے اپنا ایڈریس اور فون نمبر بھی انہیں بتا دیا۔



”کیا تم یہ سب پریس اور کورٹ میں کہہ سکتی ہو؟” انہوں نے اس کا ایڈریس نوٹ کرنے کے بعد صرف ایک ہی سوال کیا۔
”ہاں جب بھی آپ چاہیں۔”
”ٹھیک ہے، میں بہت جلد تم سے کانٹیکٹ کروں گا۔”
رابطہ ختم ہو گیا اس نے کچھ کہے بغیر فون عمر کی جانب بڑھا دیا۔
وہ عمر کے چہرے پر جو دیکھنا چاہتی تھی۔ اسے نظر نہیں آیا۔ وہ پریشان تھا نہ ہی خوفزدہ اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔اس نے علیزہ کے ہاتھ سے موبائل لے لیا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ علیزہ کو اس وقت بے پناہ خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ اپنے کندھے اسے یک دم بہت ہلکے لگنے لگے تھے۔
”فون کچھ دیر بعد ٹھیک ہوجائے گا اور میں عباس سے کہہ دوں گا، وہ باہر موجود پولیس گارڈ ہٹا لے گا… اس کے بعد تم اپنے ہر فیصلے کی ذمہ دار ہو گی۔ فیصلوں کی بھی اور ان کے نتائج کی بھی۔ میں یا کوئی دوسرا تمہیں رستہ دکھانے یا کچھ بھی سمجھانے نہیں آئیں گے۔ تم آزاد ہو جس طرح چاہے اپنی زندگی کی راہوں کا تعین کر سکتی ہو۔”
وہ گمبھیر آوازمیں اس سے بات کرتا رہا اور پھر کمرے سے چلا گیا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!