Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”میں آپ کی طرح کسی Mud Slinging میں انوالو ہونا نہیں چاہتا تھا، مگر آپ نے مجھے اس کے لئے مجبور کر دیا۔” عباس نے اس سنجیدہ لہجے میں اپنی بات جاری رکھی۔
ایاز حیدر اب بڑے اطمینان اور لا پروائی سے سگار پینے میں مصروف تھے انہوں نے عباس کو کسی بھی اسٹیج پر روکنے کی کوشش نہیں کی۔
”جس علاقے میں آپ کا گھر ہے۔ اس علاقے میں آپ کا بیٹا خاصی شہرت رکھتا تھا اور یہ یقیناً آپ سے پوشیدہ تو نہیں ہو گی۔” عباس کہہ رہا تھا۔ ”لیکن شاید آپ کے نزدیک ایسی باتوں کی اہمیت ہی نہیں تھی، اگر آپ نے شروع میں اپنے بیٹے کو روکا ہوتا تو آج اس کے ساتھ یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا۔”
”مجھے نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے… تم اور تمہارا باپ خود کیا نہیں کرتے؟” جسٹس نیاز نے ایک بار پھر اسی طرح چیختے ہوئے کہا۔ ”تم دونوں خود کیا ہو؟”
”میں اور میرا باپ کون ہیں، یہ سارا ملک جانتا ہے۔”
عباس ان کی دھاڑ سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔ ”ہم اس ملک اور اس قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہم آپ کے بیٹے کی طرح رات کو لڑکیوں کا تعاقب کرتے نہیں پھرتے۔ ”اس کی آواز میں تحقیر اور تنفر تھا۔
”اور تم جو جو کرتے ہو۔” جسٹس نیاز نے مشتعل آواز میں کہنا چاہا۔
”ہم اور جو جو کرتے ہیں، وہ آپ کو ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ان جو جو کے حوالے سے خود کوئی شفاف ٹریک ریکارڈ نہیں رکھتے۔” عباس نے یک دم ہاتھ اٹھا کر ان کی بات کاٹ دی۔
”پریس میں جو کچھ آپ کے بارے میں آرہا ہے وہ ہماری نظروں سے بھی گزرتا ہے اور پولیس والے کم از کم اتنی عقل ضرور رکھتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ کو پہچان لیں۔”



”پریس میں جو کچھ آرہا ہے ، وہ تم لوگوں کی سازش ہے۔ تم لوگ اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں میرے خلاف۔”
”ہمیں ایسے کسی اوچھے ہتھکنڈے کی ضرورت نہیں ہے، اگرہم ایسے حربوں میں یقین رکھتے تو پریس کے پاس صرف الزامات نہیں ثبوت بھی پہنچے ہوتے۔”
اس بار چیف منسٹر نے ان دونوں کی گفتگو میں مداخلت کی۔
”اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس معاملے کو اب ختم ہو جانا چاہئے۔”
”میں کسی معاملے کو ختم نہیں کروں گا… میں اپنے بیٹے کے قاتلوں کو اس طرح نہیں چھوڑ سکتا۔” جسٹس نیازنے صاف الفاظ میں کہا۔
”ٹھیک ہے آپ کی مرضی… اگر آپ کو کسی تصفیہ کی خواہش نہیں ہے تو ہم بھی کسی Settlement(تصفیہ) کے لئے مجبور نہیں ہیں… ہم بڑا دل کرکے یہاں آئے تھے لیکن آپ معاملہ کو بڑھانا چاہتے ہیں تو ضرور بڑھائیں۔ ہم بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔”
”ایاز حیدر! آپ بیٹھ جائیں میں نے آپ لوگوں کو صرف آمنے سامنے کے لئے نہیں بلوایا تھا، میں آپ کا جھگڑا ختم کروانا چاہتا ہوں۔”



”سر! میں آپ کے خلوص کی قدر کرتا ہوں اور آپ کی مرضی کے خلاف یہاں سے جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مگر میری اور عباس کی یہاں موجودگی کتنی بے معنی اور بے مقصد ثابت ہو رہی ہے، یہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ بہتر ہے آپ ہمیں جانے دیں، جب انہیں معاملہ ختم کرنے کی خواہش ہو تو آپ ہمیں کال کرلیں ہم حاضر ہو جائیں گے۔”
ایاز حیدر نے بڑے مودب انداز میں کہا، چیف منسٹر نے اس بار انہیں روکنے کے بجائے سر کے اشارے سے ان کو جانے کی اجازت دے دی۔
”میں کبھی تم لوگوں کے ساتھ کوئی سیٹل منٹ نہیں کروں گا۔ اب صرف جنگ ہو گی، میں کورٹ میں جاؤں گا۔ میں پریس کے سامنے حقائق لاؤں گا اور مجھے انصاف نہیں ملا تو پھر میں بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کروں گا جو تمہارے بیٹے نے کئے۔” جسٹس نیاز نے بلند آواز میں ایاز حیدر کو کہا۔
ایاز حیدر اور عباس چلتے چلتے ایک لمحہ کے لئے رک گئے، پھر عباس نے پر سکون انداز میں کہا۔
”آپ اپنا شوق ضرور پورا کریں… یہ آپ کا حق ہے اور قانونی جنگ کوئی آپ سے بہتر تو نہیں لڑ سکے گا۔ ” وہ دونوں باہر نکل گئے۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!