یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے
گلوکارہ کی آواز فضا میں گونج رہی تھی۔ سامعین غزل کے ہر بول کے ساتھ اپناسر دھن رہے تھے۔ علیزہ غائب دماغی کے ساتھ… غزل کو سن رہی تھی۔ یہ طاہرہ سید کی چوتھی غزل تھی۔ اگر وہ ذہنی طور پر کمپوزڈ ہوتی تو شاید اس وقت باقی سب لوگوں کی طرح ہی عمدگی سے گائی جانے والی غزل کو سراہ رہی ہوتی۔ مگر اس ذہنی کیفیت کے ساتھ کسی غزل کو سراہنا…
ہر نئی غزل کے ساتھ محفل کا رنگ جمتا جا رہا تھا۔ اس کا دل اور اچاٹ ہوتا جا رہا تھا۔ لوگوں کی فرمائشی چٹیں اب ایک تواتر کے ساتھ گلوکارہ کے پاس پہنچنا شروع ہو گئی تھیں۔ اب کافی سرو کی جا رہی تھی۔ علیزہ نے اپنے سامنے پڑی پلیٹ میں سے کچھ سونف اور الائچی منہ میں رکھی اور کافی کا ایک کپ اٹھا کر کھڑی ہو گئی۔
کھڑے ہونے سے پہلے اس نے اپنے بائیں جانب بیٹھی ہوئی سجیلہ آنٹی کے کان میں تھوڑا سا جھک کر سرگوشی کی۔
”میں کچھ دیر کے لئے باہر جا رہی ہوں… تھوڑی دیر بعد آجاؤں گی۔” سجیلہ آنٹی نے سر ہلا دیا۔ وہ پوری طرح غزل سے محظوظ ہو رہی تھیں۔
علیزہ اپنی شال کو اپنے گرد مزید لپیٹتے ہوئے ایک ہاتھ میں کافی کا مگ لئے باہر کی طرف چلی گئی۔ موسیقی کے شور اور روشنیوں سے یک دم قدرے تاریکی اور خاموشی میں آکر اس نے عجیب سا سکون محسوس کیا۔ فضا میں خنکی بہت بڑھ گئی تھی، اس نے اپنی طرح کچھ اور لوگوں کو بھی کافی کے مگ کے ساتھ یا خالی ہاتھ باہر موجود پایا۔ ان میں اور اس میں فرق صرف یہ تھا کہ وہ اکیلی تھی۔
کافی کے گھونٹ لیتے وہ وہاں ٹہلنے لگی۔ دانستہ طور پر اس نے باقی لوگوں سے خاصی دور جانے کی کوشش کی۔ وہ اس وقت وہاں کسی سے ہیلو ہائے نہیں چاہتی تھی۔
اسلام آباد میں اس کے چند ماہ کے قیام نے اسے ایاز اور سجیلہ کے حلقہ احباب میں خاصا متعارف کروا دیا تھا، اور اس وقت بھی بھوربن میں تقریباً وہی سب لوگ موجود تھے۔ جنہیں وہ اسلام آباد کی مختلف تقریبات میں دیکھا کرتی تھیں۔
اوپن ایئر کی سیڑھیوں میں بیٹھے وہ دور تاریکی میں پہاڑوں کے دھندلے ہیولوں اور ان پر کہیں کہیں ٹمٹماتی روشنیوں کو دیکھنے لگی۔
اسے وہاں بیٹھے تھوڑی دیر ہوئی تھی، جب اس نے بہت دور سے کسی کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ آنے والا مرد تھا۔ وہ بہت دور سے اسے پہچان نہیں پا رہی تھی، مگر آنے والے کا رخ چونکہ اس کی سمت تھا اس لئے اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی آنے والے شخص پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔
اس سے پہلے کہ وہ اس کے بہت قریب آجاتا، اس نے اسے پہچان لیا۔ وہ جنید ابراہیم تھا۔
٭٭٭