Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

علیزہ کچھ کہنے کے بجائے صرف مسکرا دی۔ وہ… کھانا تقریباً ختم کر چکی تھی اور اس کی خواہش تھی کہ وہ اب سجیلہ کے پاس چلی جائے یا پھر اوپر اپنے کمرے میں۔
مگر جنید ابھی تک کھانا کھا رہا تھا اور اس طرح اٹھ کر وہاں سے چلے جانا غیر مہذب بات ہوتی۔ وہ جنید کی پلیٹ کے خالی ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
”آپ اگر جانا چاہ رہی ہیں تو چلی جائیں۔” جنید نے اچانک سر اٹھا کر اس سے کہا وہ بے اختیار گڑ بڑا گئی۔ اسے جنید سے اس جملے کی توقع نہیں تھی۔
”نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔”
”مجھے لگا شاید آپ جانا چاہ رہی ہیں، مگر میرا کھانا ختم نہ ہونے کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں۔” اسے جنید کی گہری نظر پر حیرت ہوئی۔
”نہیں ایسا نہیں ہے… میں جانتی ہوں، آپ مجھے کمپنی دینے کے لئے سجیلہ آنٹی کے کہنے پر آئے ہیں۔”
اس نے اپنی خفت مٹانے کے لئے کہا۔
”مگر آپ کو تو کمپنی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔” وہ مسکرایا۔
”یہ اندازہ آپ نے کیسے لگایا؟”



”آپ نے خود سجیلہ آنٹی سے کہا تھا کہ آپ کمپنی کے بغیر بھی آرام سے ہیں۔” اس نے کچھ پہلے کہا جانے والا علیزہ کا جملہ دہرایا۔ وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔ اسے کیا کہنا چاہئے، فوری طور پر کچھ بھی اس کے دماغ میں نہیں آیا۔
وہ اب اپنا کھانا تقریباً ختم کر رہا تھا۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ اب اسے افسوس ہو رہا تھا کہ وہ جنید کی پیش کش قبول کرکے وہاں سے چلی کیوں نہیں گئی۔ آخر اسے وضاحت کی ضرورت ہی کیا تھی۔
”آپ کچھ پریشان ہیں؟” علیزہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
”نہیں کیوں؟ آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟” وہ نروس ہو گئی۔ ”آپ کا چہرہ آپ کے اندر کی کیفیت کا آئینہ ہے۔ آپ مجھے پریشان لگی ہیں تو میں نے کہا ہے۔”
جنید نے نرمی سے کہا وہ اب نیپکن سے اپنا منہ پونچھ رہا تھا۔ ”Tell tale quality” عمر کے بعد وہ دوسرا شخص تھا جس نے اس سے یہ بات کہی تھی۔
”کیا میرا چہرہ واقعی ایک آئینہ بنتا جا رہا ہے کہ میں اپنی کسی ذہنی کیفیت کو چھپا نہیں پاتی۔” وہ دل ہی دل میں پریشان ہوئی۔
کھانا ختم کرنے کے بعد جنید وہاں رکا نہیں چلا گیا لیکن وہ کافی دیر تک وہیں بیٹھی اس کے جملے پر غور کرتی رہی، اور اب وہ ایک بار پھر اس کے سامنے تھا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!