Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

ایاز حیدر اور عباس کے باہر نکلتے ہی جسٹس نیاز نے مشتعل انداز اور تند لہجے میں چیف منسٹر سے کہا۔ ”دیکھا آپ نے اس شخص اور اس کے بیٹے کا لب و لہجہ؟”
چیف منسٹر نے کچھ کہنے کی کوشش کی، مگر جسٹس نیاز نے ان کی بات نہیں سنی۔
”اور آپ نے مجھے اس شخص کے ساتھ سیٹل منٹ کے لئے بلایا تھا۔۔۔”
”نیاز صاحب! آپ … ”جسٹس نیاز نے ایک بار پھر ان کی بات کو مکمل طورپر نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”اس شخص نے مجھ پر من گھڑت الزامات کی بھرمار کر دی… مجھے بلیک میل کرنا چاہتے ہیں یہ دونوں باپ بیٹا۔” اس بار چیف منسٹر بالآخر اپنی بات کہنے میں کامیاب ہو گئے۔
”نیاز صاحب! آپ نے ان کی بات نہیں سنی۔ کم از کم میری بات تو سنیں… مجھے تو کچھ کہنے کا موقع دیں۔” چیف منسٹر کے لہجے میں تلخی اور ترشی نمایاں تھی۔ جسٹس نیاز ہونٹ بھنچتے ہوئے انہیں دیکھنے لگا۔
”میں اگر یہ چاہتا ہوں کہ آپ دونوں کی سیٹل منٹ ہو جائے تو یہ میں آپ کے لئے کر رہا ہو… ایاز حیدر کے لئے نہیں۔” چیف منسٹر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ”آپ کی فیملی اور خود آپ کا نام کتنا خراب ہو جائے گا۔ آپ کا کیرئیر داؤ پر لگ جائے گا۔”



”آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کو بھی اس شخص کی بکواس پر یقین آگیا ہے کہ میرے بیٹے نے… ” جسٹس نیاز نے بے اختیار مشتعل ہو کر کہا۔
”نیاز صاحب ! بات یقین کی نہیں ہے۔ بات ان ثبوت اور حقائق کی ہے جو میرے سامنے ہیں… آپ کے بیٹے نے واقعی ایسی حرکت کی تھی۔” چیف منسٹر نے جسٹس نیاز کی بات کاٹتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”میرے بیٹے نے… ” جسٹس نیاز نے ایک بار پھر اپنا مؤقف دہرانے کی کوشش کی، مگر چیف منسٹر نے ان کی بات ایک بار پھر کاٹ دی۔
”ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ آپ کا بیٹا بے قصور تھا، اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ آپ نے اس کی بھانجی کو اغوا کرنے کی کوشش کی نہ ہی اس کے گھر پر حملہ کروایا… تو پھر اس سب سے کیا فرق پڑتا ہے۔”
”اس معاملہ کو طے تو آپ کو پھر بھی کرنا پڑے گا… ایاز حیدر کے ساتھ آپ جھگڑا جتنا بڑھائیں گے۔ آپ کو اتنا ہی نقصان پہنچے گا… آپ اس کی دشمنی افورڈ نہیں کر سکتے۔” چیف منسٹر نے آہستہ آہستہ ان کے سامنے حقائق رکھنا شروع کر دیئے۔
”کیوں نہیں افورڈ کر سکتا… کیس کروں گا میں۔ ”
”بچوں جیسی باتیں نہ کریں نیاز صاحب! آپ خود جج ہیں… اس ملک میں قانون اور انصاف کے نظام کو کوئی آپ سے بہتر نہیں سمجھ سکتا۔” چیف منسٹر نے انہیں ٹوک دیا۔
”کتنے سال بھاگیں گے آپ، اس کیس کے پیچھے اور عدالت ثبوت مانگتی ہے… یہ دونوں کہاں سے لائیں گے؟”
”اگر مجھے اصلی گواہ اور ثبوت نہ ملے تو میں بھی جھوٹے گواہ اور ثبوت لے آؤں گا… آپ نے خود ہی کہا ہے میں جج ہوں… عدالت کے نظام کو مجھ سے بہتر کون جانتا ہے۔”جسٹس نیاز نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”ٹھیک ہے۔ آپ یہ کر لیں گے مگر یہ ثبوت اور گواہ استعمال کس کے خلاف کریں گے… ایاز حیدر ایک واحد شخص نہیں ہے ایک پورے گروپ کا نمائندہ ہے… مجھ پر پہلے ہی کہاں کہاں سے پریشر پڑ رہا ہے، آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ میں ان لوگوں کو Resist (مزاحمت) نہیں کر سکتا۔” چیف منسٹر نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔



”مجھے ابھی اپنی معیاد پوری کرنی ہے اور میں اپنے خلاف کوئی محاذ کھڑا کرنا نہیں چاہتا۔ آپ ایاز حیدر کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ ہر ہتھکنڈہ استعمال کرنے کا ماہر ہے اور میں یہ نہیں چاہتا کہ اگلے الیکشنز میں پریس میرے خلاف کوئی الزامات لگائے اور مجھے اور میری پارٹی کو نقصان پہنچے۔ ہم نے ان لوگوں کے ذریعے اگر اپنے غلط اور ناجائز کام کروائے ہیں تو پھر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ وہ آنکھیں اور منہ صرف اسی وقت تک بند رکھتے ہیں، جب تک ہم ان کی دم پر پیر نہ رکھیں۔”
”مجھے افسوس ہو رہا ہے، یہ دیکھ کر آپ اس حد تک ایاز حیدر سے خوفزدہ ہیں… مگر میں اس سے خوف زدہ نہیں ہوں… اگر اس کے پاس ایک پریشر گروپ ہے تو میرے پاس بھی پولیٹیکل سپورٹ ہے، میں اسے اس کے خلاف استعمال کروں گا۔”
”میں اس سے خوفزدہ نہیں ہوں، صرف سمجھداری سے کام لے رہا ہوں۔ اسی سمجھداری سے جس کا مظاہرہ قاسم درانی نے کیا ہے۔اگر آپ کے پاس پولیٹیکل سپورٹ ہے تو اس کے پاس بھی ایک پریشر گروپ ہے، مگر وہ بھی چار دن اخبارات میں بیانات دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکا۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!