”میں قاسم کی طرح بزدل نہیں ہوں۔” جسٹس نیاز اب بھی اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے۔
”بزدلی اور سمجھداری میں فرق ہوتا ہے۔ قاسم نے بزدلی کا نہیں سمجھداری کا ثبوت دیا۔ بیٹا تو اس کا چلا گیا وہ تو آنہیں سکتا، چاہے وہ کچھ بھی کر لے ۔ مگر انکم ٹیکس کی فائلز کھلوا کر وہ اپنا بزنس کیوں تباہ کروائے… باقی دونوں فیمیلیز نے بھی آپ سے معذرت کر لی ہے کہ انہوں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے اور وہ اس کیس کی پیروی کرنا نہیں چاہتے… یقیناً یہ بھی انہوں نے بغیر سوچے سمجھے تو نہیں کیا ہو گا… کچھ نہ کچھ تو سوچا ہی ہو گا انہوں نے۔” چیف منسٹر اب بے دھڑک انہیں سب کچھ بتاتے جا رہے تھے۔
”میں چاہتا ہوں آپ بھی ایسی ہی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں پریس میں شائع ہونے والی خبروں سے آپ کو یہ اندازہ تو ہو ہی گیا ہو گا کہ ایاز حیدر کس حد تک جا سکتا ہے… اب جب وہ آپ کے بیٹے کے بارے میں یہ سارا مواد پریس کو دے دے گا تو پریس کیا شور مچائے گا۔ آپ کو اس کا اندازہ ہونا چاہئے۔”
جسٹس نیاز چیف منسٹر کا منہ دیکھتے رہے۔
”ابھی تو اسے اپنی فیملی کی عزت اور ساکھ کا احساس ہے اس لئے وہ اصل تفصیلات نہیں بتا رہا اخبارات تک نہیں پہنچا رہا، اگر اس نے ایسا کر دیا تو آپ کو اپنے بیٹے، اس کے کردار اور اس کی حرکات کے حوالے سے کتنے سوالات کے جوابات دینا پڑیں گے، آپ کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔”
”ایاز حیدر آپ کے ساتھ واقعی اچھی ڈیل کرنا چاہتا ہے… اگر آپ اس کے بیٹے اور بھتیجے کے خلاف انکوائری پر اصرار نہ کریں اور اس کیس کو ختم کر دیں تو وہ سپریم کورٹ کا جج بنوانے کے لئے آپ کے لئے لابنگ کرے گا اور اسے حکومت اور عدلیہ کے حلقوں میں جتنا اثر و رسوخ حاصل ہے، یہ کام اس کے لئے بالکل مشکل نہیں ہو گا۔”
”میں اپنے بیٹے کے قتل کا سودا کر لوں… آپ یہ چاہتے ہیں؟” جسٹس نیاز نے ایک بار پھر تلخ لہجے میں کہا، مگر اس بار ان کی آواز پہلے کی طرح بلند نہیں تھی۔
”میں آپ کو مجبور نہیں کرتا… آپ اپنے آپشنزکو دیکھ لیں… اگر کوئی اور بہتر صورت حال نظر آتی ہے تو وہ اختیار کر لیں۔ مگر میرے خیال میں اس سے بہتر موقع آپ کے پاس نہیں ہے… آپ اپنے بیٹے کے لئے اپنا کیریئر تو داؤ پر نہیں لگا سکتے؟”
جسٹس نیاز اس بار ان کی بات کے جواب میں خاموش رہے۔ چیف منسٹر کو ان کے تاثرات سے اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنا اعتماد کھو رہے ہیں۔ شاید وہ اب پہلی بار اپنے عمل کے نتائج پر غور کر رہے تھے۔ جو چیف منسٹر نے ان کے سامنے رکھے تھے۔
”ایاز حیدر اور اس کی قبیل کے لوگوں کو ہر پنجرے سے نکلنا آتا ہے۔ مگر آپ اور میں اتنی چابیاں نہیں بدل سکتے، بہتر ہے ایک با عزت سیٹلمنٹ کے ساتھ اس معاملہ کو ختم کر دیا جائے۔ ” چیف منسٹر کا لہجہ اور مستحکم ہو تا جا رہا ہے۔
”کون سی سیٹلمنٹ ؟ میری خاموشی کے عوض صرف سپریم کورٹ کی ایک سیٹ؟” جسٹس نیاز نے کچھ سوچتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”تو آپ کیا چاہتے ہیں؟… سپریم کورٹ کا جج بننا کوئی معمولی بات تو نہیں ہے۔”
”میرے لئے معمولی ہی ہے۔ میں جو کچھ گنوا کر یہ عہدہ حاصل کر رہا ہوں… وہ ایسے بہت سے عہدوں سے بڑھ کر ہے۔
مجھے ایاز حیدر سے کچھ نہیں چاہئے… مگر مجھے آپ سے یہ گارنٹی چاہئے کہ مجھے واقعی سپریم کورٹ میں سیٹ مل جائے گی… میں اس سلسلے میں واضح یقین دہانی چاہتا ہوں۔”
”آپ کو میں زبان دیتا ہوں… مجھ پر بھروسا ہونا چاہئے …آپ کو… آپ کے ساتھ کیا جانے والا وعدہ ہر صورت میں پورا کیا جائے۔” چیف منسٹر نے انہیں یقین دلایا۔
”یہ تو وقت بتائے گا۔” جسٹس نیاز نے ایک طویل سانس لی۔ ان کے پورے وجود سے اب شکست خوردگی عیاں تھی۔
٭٭٭