”نہیں مجھے ہے۔ میں پینٹنگ کرتی ہوں مگر پینٹنگ اور آرکیٹیکچر میں بہت فرق ہوتا ہے آرکیٹکچر خاصی ٹیکینکل چیز ہے۔ ”
”چلیں یہ ٹاپک بھی گیا۔” اس نے جنید کو بہت مدہم آواز میں بڑبڑاتے سنا اور حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھا۔ اس کا تبصرہ خاصا غیر متعلق تھا۔
”آپ کا دل نہیں چاہا یہاں آکر کچھ پینٹ کرنے کو؟” اس نے فوراً ہی اگلا سوال کیا۔
آرٹسٹ اور پینٹرز تو ایسی جگہوں سے بہت انسپائر ہوتے ہیں ویسے آپ کیا بناتی ہیں لینڈ اسکیپ… اسٹل لائف یا پورٹریٹ؟”
”موڈ پر ڈپینڈ کرتا ہے مگر اکثر لینڈ اسکیپ ، باقی دونوں میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہے مجھے۔”
”تو پھر تو آپ کو اپنا ایزل اور کینوس لے کر آنا چاہئے تھا یہاں۔”
علیزہ کو بہت عرصے بعد اچانک اس وقت احساس ہوا کہ ایک لمبے عرصے سے اس نے واقعی کوئی لینڈ اسکیپ بنانے کی کوشش نہیں کی تھی اور یہ واقعی حیرت کی بات تھی کہ یہاں آکر بھی اسے کچھ بنانے کی تحریک نہیں ہو رہی تھی… چاروں طرف پھیلے ہوئے رنگوں اور خوبصورتی کے باوجود اس نے ایک گہری سانس لی جنید ابھی تک اس کے جواب کا منتظر تھا۔
”ہاں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر میں واقعی اپنے ساتھ کچھ لے کر نہیں آئی۔” ایک پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا۔
”چلیں کوئی بات نہیں اگلی بار سہی۔” جنید نے بڑی لاپروائی کے ساتھ کہا۔
اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہتی جنید کے موبائل کی بیپ سنائی دینے لگی۔ جنید نے اپنا موبائل نکال کر کال کا نمبر چیک کیا۔ علیزہ نے اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیلتے دیکھی۔
”یہ یقیناً میری امی ہوں گی۔” اس نے علیزہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور موبائل کان سے لگا لیا۔
”السلام علیکم امی… کیسی ہیں آپ؟”
”میں بالکل ٹھیک ہوں۔” وہ اب دوسری طرف سے ہونے والے سوالات کا جواب دینے میں مصروف تھا۔
”نہیں اب مجھے بالکل بھی ٹمپریچر نہیں ہے… میں نے ابھی آدھ گھنٹہ پہلے چیک کیا ہے… بالکل نارمل تھا۔”
”جی، جی میں نے جوشاندہ بھی پیا ہے… پچھلے دو گھنٹے میں دوبار آپ کو آواز سے اندازہ ہو ہی گیا ہو گا کہ گلے کی حالت کیسی ہے۔” وہ دوسری طرف سے اپنی امی کی بات سنتے ہوئے اچانک ہنسا۔
”ایک ہائی نیک پہنا ہے شرٹ کے نیچے… ایک اور سویٹر پہنا ہے… اور جیکٹ بھی پہنی ہوئی تھی۔ مگر اس وقت میری گود میں پڑی ہوئی ہے کیونکہ آج سردی زیادہ نہیں ہے… میں پہن لوں گا… امی! پہن لوں گا… اچھا… اچھا… اچھا ابھی پہن لیتا ہوں جی۔”
علیزہ دلچسپی سے اسے دیکھتی رہی، وہ اب موبائل گود میں رکھے برق رفتاری سے جیکٹ پہننے میں مصروف تھا۔
”میں نے پہن لی ہے۔” وہ اب موبائل پکڑ کر مسکرائے ہوئے کہہ رہا تھا۔ پھر وہ اچانک اپنی گھڑی دیکھنے لگا، علیزہ نے اس کے چہرے پر موجودمسکراہٹ کو بہت گہرا ہوتے دیکھا۔
”تھینک یو۔۔۔” وہ اب کچھ کہنے کے بجائے دوسری طرف سے آنے والی آواز سن رہا تھا۔
”ٹھیک ہے… تھینک یو… ہاں بات کروائیں۔۔۔” وہ اب ایک بار پھر کسی اور سے بات کرتے ہوئے شکریہ ادا کر رہا تھا۔
”تھینک یو فری…!میں ٹھیک ٹھاک ہوں انجوائے کر رہا ہوں… تم بھجوا دینا۔۔۔”
وہ اب فون پر کسی اور کا نام لے رہا تھا اور ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے دوسری طرف آنے والی آواز کی بات سنتے ہوئے ہنس رہا تھا۔