کچھ دیر بعد اس نے خدا حافظ کرتے ہوئے موبائل بند کیا اور معذرت خواہانہ انداز میں علیزہ سے کہا۔
”سوری… میں گھر بات کر رہا تھا… آپ بہت بور ہوئی ہوں گی۔” اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی موبائل پر ایک بار پھر بیپ ہونے لگی۔ وہ ایک بار پھر معذرت کرکے کال ریسیور کرنے لگا۔
اگلے دس پندرہ منٹ وہ لگاتار ایک کے بعد ایک کال ریسیور کرتا رہا۔ موبائل بند کرتے ہی ایک بار پھر بیپ ہونے لگتی اور وہ پھر گفتگو میں مصروف ہو جاتا… پھر اس نے موبائل کو بند کر دیا۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے علیزہ سے کہا۔
”آج میری برتھ ڈے ہے۔ اب صبح تک موبائل اسی طرح بجتا رہے گا۔”
”ہیپی برتھ ڈے۔” علیزہ نے اسے مبارک باد دی، وہ پہلے ہی اس کا اندازہ کر چکی تھی۔
”میرا خیال ہے، اب ہمیں اندر چلنا چاہئے، کافی رات ہو چکی ہے… آپ مزید تو یہاں بیٹھنا نہیں چاہتی ہوں گی؟” جنید نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا وہ بھی اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”آپ بیمار ہیں؟” جنید کے ساتھ سیڑھیاں اترتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”بیمار ہوں نہیں ، بیمار تھا۔”جنید نے مسکراتے ہوئے بتانا شروع کیا۔ ”چند دن پہلے فیور اور فلو تھا… امی کو فون پر آواز سے پتا چل گیا اور پھر بس میری شامت آگئی۔ اصل میں دو تین ماہ پہلے مجھے ٹائیفائیڈ ہو گیا تھا کچھ عرصہ ہاسپٹل میں بھی رہنا پڑا۔ امی اس وجہ سے زیادہ پریشان تھیں… حالانکہ یہاں پرویسی سردی نہیں ہے جس سے مجھے کوئی پریشانی ہو، مگر وہ پھر بھی فکر مند ہیں بالکل روایتی ماں ہیں وہ۔ ” وہ مسکراتا ہوا کہتا گیا۔
علیزہ نے اسے رشک سے دیکھا۔ ”آپ کی امی بہت محبت کرتی ہیں آپ سے؟”
”ہاں خاصی۔” جنید نے خوش دلی سے کہا۔
”آپ کو آپ کے فرینڈز رنگ کر رہے تھے؟”
”ہاں فرینڈز بھی… کزنز بھی، کچھ کو لیگز بھی۔”
”آپ بہت سوشل ہیں؟”
”بہت زیادہ نہیں… مگر میرا سوشل سرکل پھر بھی وسیع ہے۔” جنید نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”آپ بہت خوش قسمت ہیں۔” اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد جنید سے کہا اسے واقعی جنید پر رشک آرہا تھا۔ جنید نے اس کی بات پر مسکرا کر اسے بڑے غور سے دیکھا۔
”آپ کل کھانا کھائیں گی میرے ساتھ؟” علیزہ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
”میں برتھ ڈے کے سلسلے میں ہی دعوت دے رہا ہوں آپ کو۔” جنید نے جلدی سے وضاحت کی۔”آپ میرے ساتھ لنچ کریں گی تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔”
وہ اسے صاف انکار کر دینا چاہتی تھی، مگر وہ ایسا نہیں کر سکی۔ غیر محسوس طور پر اس نے جنید کی بات پر سر ہلا دیا۔ جنید بے اختیار مسکرایا۔
”تھینک یو۔” علیزہ نے محسوس کیا جیسے وہ اس آفر کو قبول کرنے پر خوش تھا۔
”اس کے بعد آپ چاہیں تو کل رات بھی ہم یہیں واک کر سکتے ہیں… یا پھر میں آپ کو شام کو ہائکنگ پر لے جا سکتا ہوں۔ آپ واپس اسلام آباد کب جا رہی ہیں؟”
علیزہ کچھ حیرت سے رک کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ اس طرح شیڈول طے کر رہا تھا جیسے دونوں کی بہت پرانی جان پہچان ہو۔ اس کے انداز میں جو تھا وہ بے تکلفی نہیں تھی… کچھ اور تھا… شاید اپنائیت یا پھر وہ اسے کوئی نام نہیں دے پا رہی تھی۔
”پرسوں۔” کچھ دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے جنید سے کہا۔ وہ ایک بار پھر ساتھ ساتھ چلنے لگے۔
٭٭٭