”میں رؤف کو کہوں گا کہ وہ اس سلسلے میں مخالف گروپ سے بات کرے… نیازی کا ایک ہلکا پھلکا بیان تو آج کے اخبار میں بھی تھا جس میں اس نے دبے لفظوں میں کہا ہے کہ چیمبر کو کسی کے ذاتی مفادات کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئے اور اس کا اشارہ قاسم کے بیٹے کی موت کے سلسلے میں جانے والے ان وفود کی طرف ہی تھا۔ ”
”لیکن چیمبر کے بہت سے لوگ جو مذمتی بیانات دے رہے ہیں اورقراردیں پیش ہوئی ہیں ان کے بارے میں کیا کہو گے تم؟” ایاز حیدر نے کہا۔
”اوہ یار! بیانات اور قراردادوں کو چھوڑو… اخباری بیانات کی ویلیو کیا ہوتی ہے… آج ان کے چار بیانات شائع ہو رہے ہیں کل کو ہمارے آٹھ شائع ہو جائیں گے… میں نے نیازی کے بیان کی بات اس لئے کہ تمہیں چیمبرکے نام نہاد اتحاد کے بارے میں بتادوں، جس کے بارے میں تم فکر مند ہو… اچھے خاصے اختلافات ہیں قاسم اور نیازی کے گروپ میں اور… جوں جوں وقت گزرے گا یہ بڑھیں گے۔ اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ اسٹرائیک یا جلوس کی نوبت آسکتی ہے۔ ” ہمایوں کے لہجے میں لاپروائی تھی۔
”میں پھر بھی یہ چاہتا ہوں کہ قاسم کے ٹیکس ریٹرنز کو ایک بار پھر دیکھا جائے بلکہ اگر کچھ آفسز پر ریڈز ہو جائیں تو اور بھی بہتر ہے۔”
”دیکھو اس کو نوٹس بھی بھجوا دیتا ہوں… ریڈز بھی کروا دیتا ہوں مگر کیا وہ اس پر اور نہیں بگڑے گا؟”
”مجھے اس کے بگڑنے کی پروا نہیں ہے… میں اسے اس حوالے سے پریشان کرنا چاہتا ہوں… نہ صرف اسے بلکہ اس کے حواریوں کو بھی انہیں اپنے ٹیکس ریٹرنز کی فکر شروع ہو جائے گی۔”
”ٹھیک ہے ، میں کل صبح ہی یہ کام کروا دیتا ہوں لیکن یحییٰ کچھ مسئلہ کھڑا کرے گا۔ قاسم درانی کی Pay roll پر ہے وہ اور قاسم سیدھا اسے ہی پکڑے گا۔” ہمایوں نے اس علاقے کے انکم ٹیکس کمشنر کا نام لیا جہاں قاسم کی فائلز جاتی تھیں۔
”یحییٰ کو سارا مسئلہ بتاؤ… اسے کہو کہ یا تو وہ چند دن کی چھٹی لے کر کہیں چلا جائے… یا پھر قاسم کو بالکل نظر انداز کرے، اس کے رابطہ کرنے پر بھی اس سے بات نہ کرے اور اگر مجبوراً اسے قاسم سے بات کرنی پڑ جائے تو پھر ٹال مٹول کرے… قاسم سے کہے کہ سب کچھ اوپر سے ہو رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ”
”قاسم اسے کچا چبا جائے گا… وہ ہر ماہ لاکھوں دے رہا ہے اسے… ضرورت پڑنے پر یحییٰ اس کے کام نہ آیا تو وہ تو برداشت نہیں کرے گا… میں یہی کرتا ہوں کہ یحییٰ کو چھٹی لینے پر مجبور کرتا ہوں۔” ہمایوں نے کہا۔
”ٹھیک ہے جو بھی چاہو کرو… مگر جلدی کرو… اور مجھے قاسم درانی کے انکم ٹیکس ریٹرنز کی کچھ کاپیز چاہئیں۔”
”کیوں؟”
”پریس کے لئے۔”
”مگر وہ تو کانفیڈنشل ہوتی ہیں، میں تمہیں دے بھی دوں تو پریس والے اعتراض کریں گے انہیں شک ہو گا اور پھر وہ واقعی سمجھیں گے کہ قاسم کے دعوؤں میں حقیقت ہے اور بیوروکریسی اسے پریشان کر رہی ہے۔ انکم ٹیکس والے جان بوجھ کر اس وقت ٹیکس کے معاملے کے گڑے مردے اکھاڑ کر سامنے لا رہے ہیں۔”
”ہمایوں! وہ سب میں دیکھ لوں گا… پریس میں ہیں کچھ میرے جاننے والے… وہ سب کچھ سنبھال لیں گے۔” ایاز حیدر نے لاپروائی سے کہا۔
”اوکے… میں پھر کل تم سے دوبارہ کانٹیکٹ کرتا ہوں اور تمہیں آگے کی صورت حال بتاتا ہوں، لیکن میں تمہیں بتا دوں کہ اس کے ٹیکس کے معاملات اتنے خراب ہیں کہ اسے بچانے کے لئے بیورو کریسی کے اندر کے بہت سے لوگ سامنے آجائیں گے۔ جن کی مدد سے اس نے پچھلے بیس پچیس سال میں ٹیکس بچایا ہے۔ پھر تمہیں بھی خاصی مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ” ہمایوں نے اپنے خدشے سے آگاہ کیا۔
”مجھے اس کے ٹیکس کے معاملات ٹھیک کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں صرف اپنے بیٹے اور عمر کو اس معاملے سے نکالنا چاہتا ہوں… قاسم اس تماشے کو ختم کرے… میں اس کے ٹیکس افیئرز کو بھاڑ میں پھینک دوں گا اور یہ چیز تم ان Big wigs کو اچھی طرح سمجھا سکتے ہو۔ ” ایاز نے کہا۔
”تمہارا کیا خیال ہے؟ یہ سب کتنے دن چلے گا؟” ہمایوں نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
”مجھے کوئی اندازہ نہیں یہ تو قاسم اور جسٹس نیاز کے اسٹیمنا پر منحصر ہے۔ ” ایاز حیدر نے کہا۔
”قاسم کو تو اس طرح قابو کر لو گے… لیکن جسٹس نیاز کے لئے کیا کرو گے؟” ہمایوں نے پوچھا۔
”جسٹس نیاز کے بارے میں خاصی خبریں ہیں میرے پاس… تمہارے کافی کام آئیں گی… انصاف ”بیچنے” میں خاصی شہرت حاصل ہے اس آدمی کو۔۔۔”
”اس کا یہ حوالہ میرے لئے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔”
”چیف منسٹر کے ساتھ اگلی میٹنگ کب ہے تمہاری؟”
”اس کے بارے میں مجھے پتا نہیں… وہ کوشش کر رہے ہیں کہ مجھے اور جسٹس نیاز کو آمنے سامنے بٹھا کر معاملات طے کروا دیں۔ فی الحال جسٹس نیاز اس پر رضا مند نہیں ہے… اس کامطالبہ ہے کہ پہلے عباس اور عمر کو معطل کیا جائے… اس کے بعد پھر کچھ طے ہو گا… اور میں ان دونوں کا سروس ریکارڈ خراب نہیں ہونے دوں گا… ” ایاز حیدر نے کہا۔
”ڈونٹ وری، کچھ نہیں ہو گا۔ جسٹس نیاز کو ویسے بھی لائم لائٹ میں رہنے کا شوق ہے، ہر دو چار ماہ کے بعد کوئی نہ کوئی ایشو بنایا ہوتا ہے اس نے… اس بار پریس کو پہلے کی طرح استعمال کرے گا تو خاصا پچھتائے گا۔” ہمایوں شکیل نے فون بند کرنے سے پہلے آخری جملہ ادا کیا۔
٭٭٭