Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

بھوربن سے واپسی کے بعد تیسرے دن وہ لاہور چلی آئی۔نانو واپس اپنے گھر شفٹ ہو چکی تھیں۔ گھر کی بیرونی دیوار اور گیٹ کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کر دی گئی تھی۔ مگر گیٹ پر پہلی نظر نے علیزہ کو پھر اس رات کی یاد دلائی۔ وہ کچھ دیر گیٹ پر موجود چوکیدار کا حال احوال دریافت کرتی رہی۔
پھر اندر آکر اس نے سب سے پہلی کال شہلا کو کی۔
”میں ابھی آتی ہوں تمہاری طرف۔”
اس نے علیزہ کی آواز سنتے ہی کہا۔ علیزہ نے فون بند کر دیا۔ وہ جانتی تھی وہ آدھا گھنٹہ کے بعد وہاں موجود ہوگی، اور ایسا ہی ہوا اور اس وقت لاؤنج میں نانو کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھی جب شہلا آگئی۔
رات تک وہ دونوں باتیں کرنے میں مصروف رہیں۔ اس کے جانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں سونے کے لئے جانا چاہتی تھی۔ جب نانو نے اسے روک لیا۔
”تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ علیزہ”



”سارا دن ہم باتیں ہی تو کرتے رہے ہیں نانو۔”ا سے نانو کی بات پر کچھ حیرت ہوئی۔
”ہاں باتیں ہی کرتے رہے ہیں مگر یہ ذرا سنجیدہ بات ہے اور میں چاہتی ہوں تم اسے توجہ سے سنو۔” نانو اب سنجیدہ تھیں۔
”ٹھیک ہے آپ باتیں کریں۔ میں سن رہی ہوں۔” وہ بھی سنجیدہ ہو گئی۔
”اسلام آباد میں سجیلہ نے تمہیں ایک لڑکے سے ملوایا تھا۔ جنید ابراہیم نام تھا اس کا۔” انہوں نے بات شروع کرتے ہوئے کہا۔
”اسلام آباد میں نہیں… بھوربن میں ملوایا تھا۔” اس نے تصحیح کرتے ہوئے کہا۔
”چلو بھوربن ہی سہی… تم یہ بتاؤ… تمہیں کیسا لگا ہے وہ؟”
علیزہ کے دل کی دھڑکن یک دم تیز ہو گئی۔ نانو کا سوال اب اس کے لئے سوال نہیں رہا تھا۔
”کیا مطلب ہے نانو آپ کا، وہ ویسا ہی تھا جیسے سارے لڑکے ہوتے ہیں۔” اس بار اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔
”جنید ابراہیم کے گھر سے پرپوزل آیا ہے تمہارے لئے۔”
نانو نے اب تمہید ختم کر دی۔ وہ بے حس و حرکت بیٹھی رہی۔
”مجھے اچھے لگے ہیں اس کے گھر والے۔” نانو نے اس کے تاثرات سے بے خبر اسے بتا رہی تھیں۔ ”میں نے لڑکے کی تصویر دیکھی ہے… مجھے وہ بھی بہت اچھا لگا ہے۔ سجیلہ سے فون پر میری بات ہوئی تو اس نے بھی کافی تعریف کی اس کی۔”
وہ بات کرتے کرتے ایک لحظہ کے لئے رکیں۔ پھر اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا۔
”لیکن بہرحال میں نے ابھی ان سے سوچنے کے لئے کچھ و قت مانگا ہے۔ کیونکہ تم سے پوچھے بغیر تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔”



”مجھے شادی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے… اور فی الحال تو بالکل بھی نہیں۔”
”یہ ایک انتہائی احمقانہ بات ہے اور کم از کم میں ایسی کسی بات کی بنا پر تو تمہاری شادی کے بارے میں سوچنا نہیں چھوڑ سکتی۔” نانو نے قطعی انداز میں کہا۔
”مجھے کچھ وقت چاہئے… چند سال اور۔”
”کس لئے؟”
”آپ جانتی ہیں نانو! میں کسی این جی او یا نیوز پیپر کو جوائن کرنا چاہتی ہوں… میں کچھ سوشل ورک کرنا چاہتی ہوں۔”
علیزہ یہ کام تم شادی کے بعد بھی کر سکتی ہو۔”
”نہیں ۔ میں یہ کام شادی کے بعد نہیں کر سکتی۔ شادی کے بعد کوئی اتنا یکسو ہو کر کام نہیں کر سکتا۔”
نانو اس کی بات پر بے اختیار ہنسیں۔ ”یہ کیا احمقانہ بات ہے۔”
وہ خاموش رہی۔
”بس یہی وجہ ہے یا کوئی اور بھی وجہ ہے؟” اس نے کچھ کہے بغیر صرف ایک نظر انہیں دیکھا۔
”نانو ! میں اس سے صرف دو تین بار ملی ہوں اور وہ بھی اسے ایک عام سا شخص سمجھ کر… اگر میں نے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ ایک اچھا آدمی ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ اس اچھے شخص کو میرے سر پر ہی مسلط کر دیا جائے۔” اس بار اس کی آواز میں خفگی نمایاں تھی۔
”کون مسلط کر رہا ہے کسی کو تمہارے سر پر…؟ میں نے تو تمہیں صرف ایک پرپوزل کے بارے میں بتایا ہے۔” اس بار نانو نے قدرے مفاہمانہ انداز میں کہا۔
”ثمینہ اور سکندر کا بہت پریشر ہے مجھ پر… وہ بار بار مجھ سے اس بارے میں پوچھتے رہتے ہیں۔ ابھی تک تو میں یہی کہتی رہی کہ تم اپنی تعلیم مکمل کر رہی ہو مگر اب میں اس سے اور کیا کہوں… پھرتمہارے انکلز کا بھی بہت پریشر ہے… اب تمہیں اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچ لینا چاہئے۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!