Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

اگلے دن شام کی فلائٹ سے وہ اسلام آباد چلی گئی۔ ایاز حیدر کے ڈرائیور نے ائیر پورٹ پر اسے ریسیو کیا اور گھر پہنچنے پر اس نے ایاز حیدر کی بیوی کو اپنا منتظر پایا۔
رسمی علیک سلیک کے بعد وہ جان چکی تھی کہ ایاز حیدر لاہور میں تھے اور انہیں ابھی چند دن وہیں رہنا تھا۔ ایاز حیدر کی بیوی سے بات کرکے اسے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ پچھلے کچھ دنوں کے واقعات میں علیزہ کی انوالومنٹ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔ انہیں صرف اتنا پتا تھا کہ لاہور والے گھر پر کچھ ڈاکوؤں نے حملہ کیا تھا… اور کچھ عرصہ کے لئے نانو اور علیزہ نے وہ گھر چھوڑ دیا ہے… مرمت وغیرہ ہو جانے کے بعد وہ دونوں واپس وہاں چلی جائیں گے۔
وہ علیزہ سے ہونے والے نقصان کے بارے میں پوچھتی رہیں اور اپنے افسوس کا اظہار کرتی رہیں۔
”لاء اینڈآرڈر کا تو تم پوچھو ہی مت… لاہور کے حالات تو خیر پہلے ہی خاصے خراب ہیں مگر اب اسلام آباد بھی محفوظ نہیں رہا… ہر چوری اب پوش علاقے میں ہو رہی ہے۔” وہ چائے پینے کے دوران اسے اپنے بے لاگ تبصرے سے نوازتی رہیں۔
علیزہ کوشش کے باوجود ان کی باتیں نہ توجہ سے سن سکی اور نہ ہی گفتگو میں کوئی خاطر خواہ اضافہ کر سکی۔ پچھلی رات ابھی بھی پوری طرح اس کے حواس پر اثر انداز ہو رہی تھی اور رہی سہی کسر اس وقت اس کی وہاں موجودگی پوری کر رہی تھی۔ ندامت… شرمندگی… بے بسی… پچھتاوا… وہ اپنی فیلنگز کو پہچان نہیں پا رہی تھی۔ نہ ہی انہیں کوئی نام دے پا رہی تھی۔



سجیلہ ایاز کو بہت جلد ہی اس کی غائب دماغی کا احساس ہو گیا۔ ”تم آرام کرو… یقیناً تھک گئی ہو گی۔”
علیزہ نے بے اختیار خدا کا شکر ادا کیا… تنہائی کے علاوہ اسے اس وقت کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔
اگلے کئی دن وہ اخبار کھنگالتی رہی۔ عمر اور عباس کی بات بالکل ٹھیک تھی۔ کسی بھی اخبار میں جسٹس نیاز کے ساتھ فون پر کئے جانے والے اس کے انکشاف کے بارے میں کوئی بھی خبر نہیں تھی۔ وہ اندازہ نہیں لگا سکی۔ اسے اس سے خوشی ہوئی تھی یا مایوسی۔
اگلے چند دنوں کے بعد ایاز حیدر اسلام آباد واپس آگئے تھے۔ ان کے رویے سے علیزہ کو احساس نہیں ہوا کہ وہ کچھ بھی جانتے تھے۔ وہ کم از کم اس معاملے میں خدا کا شکر ادا کر رہی تھی۔ عمر اور عباس نے اس معاملے میں اسے بچا لیا تھا۔ کم از کم وہ یہی سمجھ رہی تھی۔
ایاز حیدر کے گھر پر وہ ایک بہت لگی بندھی زندگی گزار رہی تھی۔ ایاز اور سجیلہ کی اپنی مصروفیات تھیں۔ وہ دونوں بہت کم ہی گھر پر ہوتے۔ علیزہ سارے دن گھر پر ٹی وی دیکھتے یا کتابیں پڑھتے ہوئے وقت گزارتی… یا پھر لانگ ڈرائیو پر نکل جاتی۔ رات کے وقت سجیلہ اور ایاز حیدر اسے اکثر ان مختلف ڈنرز میں ساتھ لے جاتے جہاں وہ مدعو ہوتے۔ وہ دونوں بہت سوشل تھے اور بہت کم ہی کوئی رات ہوتی جب وہ کہیں نہ کہیں مدعو نہ ہوتے… علیزہ بعض دفعہ خوشی سے ان کے ساتھ جاتی اور بعض دفعہ ایاز حیدر کے اصرار پر زبردستی، وہ دونوں آہستہ آہستہ اسے بہت ساری فیملیز کے ساتھ متعارف کروا رہے تھے۔
عمر اسے وقتاً فوقتاً فون کر تا رہتا تھا۔
”میں واپس کب آؤں گی؟” وہ ہر بار اس سے ایک ہی سوال کرتی۔
”بس کچھ دن اور” وہ ایک ہی جملہ دہراتا اور پھر کوئی اور بات شروع کر دیتا۔



پھر آہستہ آہستہ اس کی کالز میں آنے والا وقفہ بڑھنے لگا،لیکن ہر بار کال آنے پر اس کی آواز اور لہجے میں اتنی گرم جوشی ہوتی کہ علیزہ شکایت کرنا بھول جاتی یا شاید اگلی بار کے لئے ملتوی کر دیتی۔
وہ نانو اور شہلا سے بھی مسلسل رابطے میں تھی۔ اپنے رزلٹ کا بھی اسے شہلا کے ذریعے ہی پتا چلا تھا۔ لاہور واپس جانے کے لئے اس کی بے تابی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
عمر نے اسے مبارک باد دینے کے لئے فون کیا۔ ”ابھی کچھ ہفتے لگیں گے… وہاں کچھ مرمت ہو رہی ہے… اس لئے وہاں تو تم نہیں ٹھہر سکو گی… عباس کے ہاں ہی رکنا پڑے گا تمہیں… یا پھر تم میرے پاس آجاؤ۔” عمر نے ایک بار پھر اس کے سوال پر کہا۔
”نہیں پھر میں یہیں اسلام آباد میں ہی رہتی ہوں لیکن آپ مجھے یہ تو بتا دیں کہ یہ مرمت کب ختم ہو گی؟”
”بہت جلدی… میں جانتا ہوں۔ تم واپس آنا چاہتی ہو… جیسے ہی وہاں کام ختم ہوا میں تمہیں بتا دوں گا… پھر تم آجانا۔” عمر نے ایک بار پھر اسے یقین دہانی کروائی۔
علیزہ نے اسلام آباد آنے کے بعد عمر سے دوبارہ اس سارے معاملے کے بارے میں بات نہیں کی… اسے تجسس تھا اور اخبارات میں لگنے والی مختلف خبروں نے اس تجسس کو اور بڑھا دیا تھا… مگر وہ اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پاتی تھی کہ عمر یا عباس سے ا س ساری صورتِ حال کے بارے میں پوچھے۔
پھر یک دم اخباروں میں اس سارے معاملے کے بارے میں خبریں آنا بند ہو گئیں۔ کچھ دنوں کے بعد اسے پتا چلا کہ عباس حیدر ایک سال کی چھٹی لے کر انگلینڈ کرمنالوجی کا کوئی کورس کرنے جا رہا تھا۔ اس کی چھٹی منظور ہونے سے پہلے اس کی پروموشن ہو گئی تھی۔ علیزہ کو اندازہ ہو گیا کہ جسٹس نیاز کا کیس ختم ہو چکا ہے۔ عمر بھی اپنے پہلے والے شہر میں ہی پوسٹڈ تھا۔ علیزہ کے احساس جرم میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔
”باتیں یاد عویٰ کرنا بہت آسان ہوتا ہے، یہ کام کوئی بھی کر سکتا ہے… مگرسسٹم کو بدلنا یا بدلنے کے لئے ایک چھوٹا سا قدم اٹھانا بھی آسان نہیں ہوتا۔” بہت عرصہ پہلے عمر کی کہی ہوئی کچھ باتیں اسے بار بار یاد آئیں۔



جو تجزیہ اسے اس وقت اور خود غرضانہ لگا تھا وہ اب کس قدر صحیح لگ رہا تھا… یہ صرف وہی جانتی تھی۔
”چیزوں کو ناپسند کرنا اور بات ہے… اٹھا کر پھینک دینا اور … یہ حقیقت مان لینی چاہئے کہ کم از کم ہماری کلاس اس سسٹم کو بدلنے کی اہلیت ، صلاحیت یا شاید جرات نہیں رکھتی۔ کوئی بھی شخص اس ٹہنی کو نہیں کاٹتا جس پر خود سوار ہو… اور ہماری کلاس کسی دوسرے کو یہ سسٹم بدلنے نہیں دے گی… کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو بھی وہ ٹہنے کاٹنے نہیں دیتا جس پر وہ سوار ہو… یہ You miss I hit والی صورتِ حال ہے… ہماری کلاس کی خوش قسمتی ہے، ابھی تک ہم کسی بھی طرح ریسیونگ اینڈ پر نہیں پہنچے۔”
وہ اس وقت بعض دفعہ اس کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتی تھی۔ بعض دفعہ بحث کرتی… یا پھر ناپسندیدگی کے اظہار کے لئے خاموش ہو جاتی، وہ اب ان ساری باتوں کے بار ے میں سوچ کر صرف شرمندہ ہوتی تھی۔
اسے شہباز منیر والا واقعہ اچھی طرح یاد تھا۔ اس وقت اسے عمر سے شکایت ہوئی تھی کہ اس نے ایاز انکل سے کمپرومائز کیوں کیا… سب کچھ پریس تک اور کورٹ تک کیوں نہیں لے گیا۔
اب خود ایاز حیدر کے گھر بیٹھے وہ حالات کی ستم ظریفی پر حیران ہوتی۔ وہ عمر سے کسی بھی طرح مختلف ثابت نہیں ہوئی تھی۔ جب اسے اپنی زندگی خطرے میں نظر آنے لگی تو وہ بھی کمپرومائز کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔
”زندگی بڑی شرمندہ کروانے والی چیز ہے… تم … میں … یا کوئی بھی… ہم سب ایک ہی جھولے میں سوار ہیں اور کوئی بھی اس میں سے اترنا نہیں چاہتا… کیونکہ نیچے کھڑے ہو کردوسروں کو آسمان تک پہنچتے دیکھنا بڑا صبر آزما اور تکلیف دہ کام ہوتا ہے۔ کم از کم مجھ میں تویہ حوصلہ نہیں ۔” اسے عمر کی باتیں اب سمجھ میں آرہی تھیں۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!