Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”میں تم لوگوں کی باتوں پر قطعاً یقین نہیں کر سکتا۔ تم اور تمہارے بیٹے کے پاس جھوٹ کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں۔ ” جسٹس نیاز چیف منسٹر کی موجودگی کی پروا کئے بغیر ایاز حیدر اور عباس پر اشتعال کے عالم میں چلا رہے تھے۔
وہ چاروں اس وقت چیف منسٹر کی رہائش گاہ پر موجود تھے۔ ایاز حیدر اور عباس بڑے سکون اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جسٹس نیاز کے الزامات اور چیخ و پکار کو سن رہے تھے ۔ چیف منسٹر بار بار جسٹس نیاز کا اشتعال کم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ یہ نہ کر رہے ہوتے تو شاید جسٹس نیاز یقیناً اب تک ایاز حیدر اور عباس کے ساتھ ہاتھا پائی کر رہے ہوتے۔
”نیاز صاحب! آپ… دیکھیں… میری سنیں… میں آپ کے جذبات سمجھتا ہوں مگر دیکھیں… اس طرح سب کچھ کیسے طے ہو گا… آپ دونوں فریق آرام سے ایک دوسرے کی بات سنیں۔” چیف منسٹر نے ان کا پارہ نیچے لانے کی ایک اور کوشش کی۔
”آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں بات سنوں… میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کروں۔ ” جسٹس نیاز ان کی بات پر اور مشتعل ہوئے۔ ”میرا جو ان اور معصوم بیٹا اس نے مار دیا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں چلاؤں بھی نہ ۔ ” جسٹس نیاز نے عباس کو گالی دیتے ہوئے کہا۔ چند لمحوں کے لئے عباس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔



”سر! گالی نہ دیں… گالی کے بغیر بات کریں، میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن گالیاں کھانے کے لئے ہم لوگ یہاں نہیں آئے ہیں۔” ایاز حیدر نے یک دم جسٹس نیاز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”تم میرے پورے خاندان کو پریس کے ذریعے اسکینڈلائز کر رہے ہو… میرے بیٹے کو گھر سے اٹھا کر تمہارے بیٹے نے جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا اور میں تمہارے بیٹے کو گالی تک نہیں دے سکتا۔”
”جو کچھ ہوا مجھے اور عباس کو اس پر افسوس ہے… مگر جو کچھ آپ کے بیٹے نے کیا وہ بھی۔۔۔”
جسٹس نیاز نے غصے کے عالم میں ایاز حیدر کی بات کاٹ دی۔ ”کیا کیا میرے بیٹے نے… بولو کیا کیا تھا میرے بیٹے نے؟”
”میں آپ کو بتا چکا ہوں، آپ کے بیٹے نے کیا کیا تھا۔”
”تم بکواس کرتے ہو… جھوٹ بولتے ہو۔”
”مجھے نہ بکواس کرنے کی ضرورت ہے نہ جھوٹ بولنے کی… جب انسان کے پاس ثبوت اور حقائق ہوں تو اسے یہ دونوں کام نہیں کرنا پڑتے۔”
”تم اور تمہارے ثبوت اور حقائق … میں بے وقوف نہیں ہوں۔”
”آپ کی اس چیخ و پکار سے تو آپ کی کوئی عقلمندی نہیں جھلک رہی۔” ایاز حیدر نے دو بدو کہا۔
”میرے بیٹے نے گھر آنے کے بعد مجھے سب کچھ بتایا تھا۔ اس نے مجھے کہا تھا اس نے ایک لڑکی کا صرف تعاقب کیا تھا اپنے چند دوستوں کے ساتھ… جسٹ فار انجوائے منٹ… اور اس نے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔”
”آپ کے بیٹے نے آپ سے جھوٹ بولا تھا۔” ایاز حیدر نے پر سکون انداز میں کہا۔
”نہیں… اس نے مجھ سے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ مجھے اس کے ایک ایک لفظ پر اعتبار ہے۔” جسٹس نیاز نے اپنی پر زور دیتے ہوئے کہا۔



”بہتر ہے، آپ اس کے لفظوں کے بجائے حقائق پر اعتبار کرنا سیکھیں۔ ” ایاز حیدر نے اسی پر سکون انداز میں کہا۔
”آپ کا بیٹا جس کردار کا مالک تھا… آپ وہ۔۔۔”
جسٹس نیاز نے بلند آواز میں ایاز حیدر کی باٹ کاٹ دی۔ ”میرے بیٹے کے کردار کے بارے میں بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ LUMSمیں پڑھ رہا تھا میرا بیٹا… اپنے Batch کا سب سے آؤٹ اسٹینڈنگ اسٹوڈنٹ تھا اور تم اس پر اس طرح کے تھرڈ کلاس الزامات لگا رہے ہو۔” ان کی آواز غصے سے جیسے پھٹ رہی تھی۔
LUMS “کی ڈگری آپ کے بیٹے کا کریکٹر سر ٹیفکیٹ نہیں ہے۔ وہ اگر ہسٹری شیٹر نہیں بنا تو اس کی وجہ آپ کا عہدہ تھا۔ ورنہ لاہور کی ساری پولیس کو اس کے اور اس کے دوستوں کے بارے میں بہت کچھ پتا ہے۔” اس بار ایاز حیدر کی آواز بھی بلند تھی۔
”آپ کو اپنے بیٹے کی موت کی بہت تکلیف ہے اور مجھے اپنی بھانجی کی بے عزتی کا کوئی دکھ نہیں ہونا چاہئے۔”
”میرے بیٹے نے تمہاری بھانجی کی کوئی بے عزتی نہیں کی اس نے صرف اس کا تعاقب کیا۔”
”Your son raped my niece.” ایاز حیدر نے اس بار سرخ چہرے کے ساتھ کہا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!