”بڑی حیرت کی بات ہے… مجھے لگتا ہے… ممی نے تمہیں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔” ان کا اشارہ نانو کی طرف تھا۔
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے… نانو نے مجھ پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی۔ وہ بہت لبرل ہیں۔” علیزہ نے نانو کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
”اسی لئے تو مجھے حیرت ہو رہی ہے… بہرحال تم نے اس بارے میں سوچا کیا ہے۔ تعلیم تو مکمل ہو ہی گئی ہے تمہاری۔” وہ اب سویٹ ڈش نکال رہی تھیں۔ علیزہ سویٹ ڈش کھانا بند کر چکی تھی۔
”نہیں، میں فی الحال شادی نہیں کرنا چاہتی… مجھے کسی نہ کسی فیلڈ میں اپنا کیرئیر بنا نا ہے۔”
”کیریئر کا کیا ہے، وہ تو ساتھ ساتھ چل سکتا ہے… جرنلزم ہو یا سوشل ورک دونوں اتنے Time Consuming (وقت طلب) تو نہیں ہیں کہ بندہ ان کے ساتھ ساتھ شادی کا سوچ ہی نہ سکے۔ تمہارا کیا خیال ہے؟”
”میں کیا کہہ سکتی ہوں۔” وہ بمشکل مسکرائی۔
”یہ تمہاری زندگی کا معاملہ ہے، تمہارے علاوہ کوئی اور اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہے۔ بہرحال اس مسئلے پر دوبارہ کبھی بات کریں گے… ابھی تو میں تمہیں یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ تم ایک دو ہفتے کے لئے اپنا قیام یہاں بڑھاؤ… اگلے ویک اینڈ پر میرے ساتھ بھوربن چلو… تم یقیناً انجوائے کرو گی۔” وہ اب نیپکن سے اپنا منہ پونچھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”وہاں پر بہت سی این جی اوز کے لوگ بھی ہوں گے۔ جرنلسٹ بھی ہوں گے۔ تمہارے لئے انٹر ایکشن کا خاصا اچھا موقع ہے۔” وہ کہہ رہی تھیں۔ علیزہ صرف سر ہلا کر رہ گئی۔
سجیلہ ایاز کھانا ختم کرکے ٹیبل سے اٹھ گئیں لیکن علیزہ وہیں بیٹھی رہی… بہت دنوں کے بعد اسے ایک بار پھر عمر یاد آرہا تھا۔ اسے علیزہ سے رابطہ کئے بہت دن ہو گئے تھے۔ وہ جانتی تھی وہ واپس اپنے شہر چلا گیاہو گا اورشاید اپنے کاموں میں بری طرح پھنسا ہو گا… یا پھر شاید اس کے پاس کچھ اور ”مصروفیات ” ہوں گی۔
اس کی چند لمحے پہلے کی بے فکری اچانک ختم ہو گئی۔ وہ بہت عجیب سے احساس سے دوچار ہورہی تھی۔ ڈنر ٹیبل سے اٹھتے ہوئے وہ جانتی تھی کہ وہ آج رات پر سکون نیند نہیں سوئے گی۔
لاؤنج سے نکلتے ہوئے اس کی نظر اچانک فون پر پڑی۔ لاشعوری طور پر وہ اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے واپس پلٹ آئی۔ فون کے پاس آکر ریسیور اٹھاتے ہوئے اس نے میکانکی انداز میں عمر کے موبائل کا نمبرڈائل کیا۔ موبائل خلافِ معمول آف نہیں تھا۔ پہلی بیپ کے ساتھ ہی اسے دوسری طرف عمر کی آواز سنائی دی۔
”ہیلو” اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا لیکن کچھ کہنے سے پہلے ہی اس کی آواز حلق میں دم توڑ گئی۔ اس نے ریسیور میں عمر کی آواز کے علاوہ ایک اور آواز بھی سنی تھی۔ شستہ انگلش میں اس نسوانی آواز نے عمر سے صرف ایک جملہ کہا تھا۔ دوبارہ وہ آواز سنائی نہیں دی… وہ ایک جملے کے بجائے ایک لفظ بھی بولتی تو علیزہ کو اس آواز کو شناخت کرنے میں کوئی دقت نہ ہوتی۔
”ہیلو کون بول رہا ہے؟” عمر اب ایک بار پھر کہہ رہا تھا۔ علیزہ نے کچھ کہے بغیر ریسیور نیچے رکھ دیا۔
اس سے پہلے کہ وہ صوفہ سے اٹھتی، فون کی گھنٹی بجنے لگی، CLIپر موجود نمبر عمر کا تھا۔ علیزہ نے بے اختیار آنکھیں بند کرلیں۔
عمر کی ہر حرکت ریفلیکس ایکشن کی طرح بے اختیار اور تیز تھی… وہ کبھی بھی اس سے چھپ نہیں سکتی تھی۔
”اس نے یقیناً اپنے موبائل پر ایاز حیدر کا نمبر پہچان لیا ہو گا اور اسے توقع ہو گی کہ یہ کال میں نے ہی کی تھی۔”
علیزہ نے ریسیور اٹھا کر کریڈل سے نیچے رکھ دیا۔ وہ اس ذہنی کیفیت کے ساتھ عمر سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ چند منٹ وہیں بیٹھے رہنے کے بعد اس نے ریسیور واپس کریڈل پر رکھ دیا۔
لاؤنج سے نکلتے ہوئے اس نے ملازم کو ہدایت دی۔ ”ظہیر ! اگر عمر کا فون ہو تو ان سے کہہ دینا کہ میں بہت دیر پہلے سو گئی تھی… میری ان سے بات مت کروانا۔”
اس نے ملازم کی حیرت کو نظر اندا زکرتے ہوئے کہا۔
اپنے کمرے میں پہنچ کر وہ سیدھا بیڈ کی طرف جانے کے بجائے کھڑکی کی طرف بڑھ گئی۔ کھڑکی کے پردے ہٹا کر وہ باہر لان میں دیکھنے لگی۔ جہاں اکا دکا جلنے والی روشنیاں اسے مکمل تاریکی سے بچا رہی تھیں۔
”Umer! I’ll be back in a minute.”
ریسیور پر سنی جانے والی آواز ایک بار پھر اس کی سماعتوں میں گونج رہی تھی۔ اسے باہر موجود ساری تاریکی اپنے اندر اترتی محسوس ہونے لگی۔
”عمر کے بارے میں میرا ہر اندازہ ہمیشہ غلط کیوں ہوتا ہے؟… کیا میں ہمیشہ اتنی ہی بے وقوف رہوں گی یا پھر شاید۔۔۔” وہ مایوسی سے اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔
”میرا خیال تھا جوڈتھ اس کی زندگی سے نکل چکی ہے… مگر وہ ایک بار پھر آگئی ہے یا پھر وہ شاید کبھی کہیں گئی ہی نہیں۔” اس کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔
٭٭٭