”میں تمہاری بکواس پر یقین نہیں کر سکتا۔ ” جسٹس نیاز نے بڑے تحقیرانہ انداز میں اپنے ہاتھ کو جھٹکا۔
”حقیقت کو آپ بکواس کہیں یا اس پر یقین نہ کریں، اس سے اس کا وجود ختم ہوتا ہے نا اس کی Authenticity” ایاز حیدر نے ایک بار پھر تحمل سے کہا۔
”تم اور تمہارے حقائق۔” جسٹس نیاز نے ایک بار پھر ایاز حیدر کو گالی دیتے ہوئے کہا۔ اس بارایاز کا چہرہ سرخ ہو گیا، مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے چیف منسٹر نے مداخلت کی۔
”نیا زصاحب! میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مہذب زبان استعمال کریں۔ اس گالم گلوچ سے صورت حال اور خراب ہو گی اور فریقین میں سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔”
جسٹس نیاز ، چیف منسٹر کی بات پر ایک بار پھر آگ بگولہ ہو گئے۔ ”میں یہاں انصاف لینے آیا ہوں کوئی فائدہ نہیں۔”
”آپ کے بیٹے کے ساتھ انصاف ہی کیا گیا تھا۔” ایاز حیدر کا لہجہ اس بار بالکل سرد تھا۔
اس سے پہلے کہ ان کی اس بات پر جسٹس نیاز اور مشتعل ہوتے چیف منسٹر نے ایک پھر مداخلت کی۔
”اس فضول بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ کس نے کیا کیا میں نے آپ دونوں کو یہاں معاملات طے کروانے کے لئے بلوایا ہے۔ جو کچھ ہو چکا ہے۔ اس کو تو بدلا نہیں جا سکتا، نہ آپ بدل سکتے ہیں نہ یہ۔”
”ہمیں دوستانہ تصفیہ کرلینا چاہئے۔”
”ہم اس کے لئے تیار ہیں اور ہم یہاں اسی لئے موجود ہیں؟” ایاز حیدر نے ان کی تجویز پر کہا۔
”مگر میں اس کے لئے تیار ہوں نہ اس لئے یہاں آیا ہوں۔” جسٹس نیاز کے لہجے میں کوئی تبدیلی نہیں تھی۔
”نیاز صاحب! آپ معاملے کو طول دینے کی کوشش نہ کریں۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔” چیف منسٹرنے اس بار کچھ جھنجھلا کر کہا۔
”اگر آپ کو یہ لگ رہا ہے کہ میں معاملے کو طول دے رہا ہوں تو ایسا ہی سہی۔”
چیف منسٹر نے ان سے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر جسٹس نیاز نے ہاتھ اٹھا کر انہیں روک دیا۔
”ہو سکتا ہے آپ اس کے پریشر میں ہوں، مگر میں ایاز حیدر اور اس کے گینگ سے نہیں ڈرتا۔”
ایاز حیدر نے ان کی بات پر ایک لمحہ کے لئے اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔
”سر! میرے لئے اس طرح کے الفاظ استعمال نہ کریں۔ میں یہاں کسی تلخی کو بڑھانے نہیں آیا اور میں بہت برداشت کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔” ایاز حیدر نے اس بار براہ راست جسٹس نیاز کو مخاطب کیا۔
”کس نے کہا ہے کہ تم برداشت کا مظاہرہ کرو، مت کرو۔” جسٹس نیاز نے تقریباً دھاڑتے ہوئے کہا۔
”میرے بیٹے کو تم نے مار ڈالا اور اب تم اس پر الزام لگا رہے ہو۔ اخبارات کے ذریعے مجھے بدنام کر رہے ہو اور یہ بھی چاہتے ہو کہ میں تم لوگوں کے ساتھ تصفیہ بھی کرلوں۔ تم ایک انتہائی گھٹیا اور کمینے شخص ہو ایاز حیدر۔” وہ ایک ہی سانس میں بولتے گئے۔
”آپ کے بیٹے کو جس وجہ سے مارا گیا، وہ میں آپ کو بتا چکا ہوں… یہ کوئی سوچا سمجھا قتل نہیں تھا۔ عباس اور عمر کی جگہ آپ ہوتے اور میری بھانجی کی جگہ آپ کی بیٹی ہوتی تو آپ بھی یہی کرتے۔” ایاز حیدر نے کرسی پر کچھ آگے جھکتے ہوئے کہا۔ ”اور میں آپ کے بیٹے پر جھوٹا الزام کیوں لگاؤں گا… میں اپنی بھانجی کو خود بدنام کروں گا۔ اپنے خاندان کی عزت کو بازار میں اچھا لوں گا؟”
وہ ایک لحظہ کے لئے رکے۔
”جہاں تک اخبارات کا تعلق ہے تو وہاں شائع ہونے والی خبروں میں بھی میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔”
”تم۔” جسٹس نیاز نے غصے کے عالم میں ان کی بات کاٹنا چاہی، مگر چیف منسٹر نے انہیں روک دیا۔
”نیاز صاحب!آپ انہیں بات تو کرنے دیں۔ پہلے ان کی سن لیں پھر جو چاہے کہیں۔” ان کا لہجہ اس بار التجائیہ تھا۔ جسٹس نیاز پتا نہیں کیا سوچ کر چپ ہو گئے۔
”اخبارات کا جو دل چاہتا ہے وہ چھاپ دیتے ہیں ۔ وہ میرے حکم سے نہیں چلتے، نہ ہی ان پر مجھے کوئی کنٹرول ہے۔ آج وہ آپ کے بارے میں خبریں شائع کر رہے ہیں تو کل میرے بارے میں بھی چھاپ سکتے ہیں۔”
ایاز حیدر نے ایک بار پھر بڑی سنجیدگی سے اپنی بات شروع کی۔
”ویسے بھی جن لوگوں کے حوالے سے وہ خبریں شائع کر رہے ہیں ان سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ آپ کا ہی تعلق ہے آپ مختلف اوقات میں ان مقدمات میں فیصلے دیتے رہے ہیں اور ان لوگوں کو ان فیصلوں کے حوالے سے اعتراضات ہیں۔”