Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

جسٹس نیاز کے ماتھے پر پڑے ہوئے بلوں میں اضافہ ہوتا گیا۔
”اور یہ لوگ صرف اب ہی اخبارات میں بیان نہیں دے رہے، یہ پہلے بھی بہت سے بیانات دیتے رہے ہیں۔ کیا اس وقت بھی انہیں اخبارات تک لانے کا ذمہ دار میں تھا۔”
ایاز حیدر اس بار کچھ غصے کے عالم میں کہتے گئے۔
”آپ کے بیٹے کے ساتھ سب کچھ کس وجہ سے ہوا میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ آپ اسے جھوٹ سمجھیں یا جو بھی کہیں اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہو گی۔” انہوں نے اچانک اپنی ٹون بدلی۔
”آپ کو اگر اپنے بیٹے کی موت کا دکھ ہے تو مجھے بھی اپنی بھانجی کی بے عزتی کا رنج ہے… اگر آپ کے بیٹے کو زندگی سے محروم ہونا پڑا ہے تو میری بھانجی کی زندگی بھی تباہ ہو گئی ہے۔” اس بار ان کی آواز میں واضح افسردگی موجود تھی۔
”وہ ابھی تک اسلام آباد کے ایک کلینک میں زیر علاج ہے، اس کی ذہنی حالت اتنی خراب ہے کہ ڈاکٹرز اسے علاج کے لئے بیرون ملک لے جانے کا کہہ رہے ہیں۔”
جسٹس نیاز اس بار خاموش نہیں رہ سکے۔”تم دنیا کے سب سے بڑے جھوٹے آدمی ہو… میں نے تمہیں بتایا ہے میرے بیٹے نے تمہاری بھانجی کا صرف تعاقب کیا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ تمہاری بھانجی تھی اور اس نے مجھے یہ سب کچھ بتا دیا تھا۔”



”آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔” ایاز حیدر نے اس بار پہلی دفعہ ان کی بات کاٹی۔
”میں جھوٹ بول رہا ہوں؟”
”ہاں آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اگر یہ سچ ہوتا تو آپ نے میری مدر کے گھر پر فائرنگ کروا کر میری بھانجی کو اغوا کرنے کی کوشش نہ کی ہوتی۔”
”میں نے کیا کیا؟” جسٹس نیاز جیسے ہکا بکا رہ گئے۔
”آپ نے ہمارے خاندانی گھر پر حملہ کروایا اور میری بھانجی کو اغوا کرنے کی کوشش کی، یہ صرف ایک اتفاق تھا کہ میری بھانجی وہاں نہیں تھی اور پولیس وقت پر وہاں پہنچ گئی۔”
جسٹس نیاز کچھ نہ سمجھتے ہوئے چیف منسٹر کو دیکھنے لگے۔
”یہ کیا کہہ رہاہے، میری سمجھ میں نہیں آرہا… کون سا حملہ؟ کیسا اغوا؟”
”یہ حقیقت ہے نیاز صاحب ! ایاز حیدر غلط نہیں کہہ رہے نہ ہی جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان کے گھر پر حملہ ہوا ہے۔” اس بار چیف منسٹر نے سنجیدگی سے کہا۔ “حملہ کرنے والوں نے چوکیدار کو زخمی کرنے کے علاوہ گھر پر زبردست فائرنگ کی… سامان کو توڑ پھوڑ ڈالا… ان کی بھانجی وہاں نہیں تھیں، صرف مسز معاذ حیدر تھیں۔ جو چھپ گئیں… اسی دوران پولیس وہاں پہنچ گئی اور ان کی جان بچ گئی۔ کیونکہ وہ لوگ وہاں سے فرار ہو گئے۔ ایاز حیدر نے مجھے فوری طور پر اسی وقت اس واقعہ کی اطلاع دے دی تھی۔”



چیف منسٹر نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔
”ہو سکتا ہے ہوا ہو ایسا ، لیکن اس سے میرا تعلق کیسے بنتا ہے؟” جسٹس نیاز نے اس بار الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”ایاز حیدر نے آپ کا اور قاسم کا نام لیا ہے ان کا خیال ہے کہ یہ کام آپ دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔ وہ اس سلسلے میں آپ دونوں کے خلاف ایف آئی آر لکھوانا چاہتے تھے مگر، میں نے انہیں روک دیا… میں اس جھگڑے کو اور طول نہیں دینا چاہتا۔”
”یہ سب بکواس اور فراڈ ہے میں اور میرا خاندان ابھی تک اپنے بیٹے کی موت کے شاک سے باہر نہیں آئے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں نے اس کے گھر پر حملہ کروایا اور اس کی بھانجی کو اغوا کرنے کی کوشش کی ۔” انہوں نے برہمی سے چیف منسٹر کی بات کے جواب میں کہا۔
”مجھے تو یہ تک پتا نہیں تھا کہ وہ لڑکی اس کی بھانجی تھی پھر میں یہ کیسے کروا سکتا تھا۔” وہ ایک بار پھر مشتعل ہو رہے تھے۔
”ہو سکتا ہے، آپ نے یہ نہ کروایا ہو… قاسم درانی نے کروایا ہو۔” چیف منسٹر نے کچھ نرمی سے کہا۔
ایاز حیدر بالکل خاموشی سے گفتگو سن رہے تھے۔
”اگر قاسم نے یہ کروایا ہے تو پھر آپ کو یہ سب کچھ قاسم کو بتانا چاہئے تھا، مجھے کیوں بتا رہے ہیں۔ ” انہوں نے ترشی سے چیف منسٹر سے کہا۔
”نیاز صاحب آپ اس وقت اس بات کو چھوڑیں میں نے کہا ہے نا کہ گڑے مردے اکھاڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نے ایاز حیدر کو بھی سمجھایا ہے میں آپ کو بھی سمجھا رہا ہوں تعلقات مزید کشیدہ کرنے کے بجائے معاملہ ختم کر دیں۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!