Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”آپ کا بیٹااس طرح مرا ہوتا تو آپ معاملہ اس طرح ختم کر دیتے؟” جسٹس نیاز نے چبھتے ہوئے اندار میں کہا۔
”یہ حالات پر منحصر ہوتا… اگر میرے بیٹے نے وہ سب کچھ کیا ہوتا جو آپ کے بیٹے نے کیا تو میں اس کو خو دگولی مار دیتا۔” چیف منسٹر نے بے دھڑک کہا۔
”میں نے آپ کو کہا ہے میرے بیٹے نے کچھ بھی نہیں کیا۔ وہ بے گناہ تھا۔ ” جسٹس نیاز ان کی بات کے جواب میں چلائے۔
”اگر صرف گلا پھاڑنے سے کسی کا جرم یا بے گناہی ثابت ہوتی ہے تو میں آپ سے زیادہ گلا پھاڑ سکتا ہوں۔ اگر آپ بضد ہیں کہ آپ کے بیٹے نے میری بھانجی کے ساتھ کچھ نہیں کیا تو میں بھی کہتا ہوں کہ میرے بیٹے نے بھی آپ کے بیٹے کے ساتھ کچھ نہیں کیا۔ وہ واقعی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔”
ایاز حیدر کے تلخ لہجے میں کہے گئے جملے کے جواب میں جسٹس نیاز اس بار صرف خاموشی سے انہیں گھورتے رہے۔
”نیاز صاحب ! ہو سکتا ہے آپ کے بیٹے نے آپ کو حقیقت نہ بتائی ہو… جس طرح کی حرکت اس نے کی تھی اس کے بعد آپ خود سوچیں۔ وہ کس طرح دیدہ دلیری سے آپ کے سامنے اس کا اعتراف کر سکتا تھا… ہائی کورٹ کے ایک جج کے سامنے۔”
چیف منسٹر نے اس بار نفسیاتی حربہ استعمال کرتے ہوئے کہا۔



”اسے خدشہ ہو گا کہ آپ اسے فوراً پولیس کے حوالے کر دیں گے اور اس کا مستقبل تباہ ہو جائے گا… ہو سکتا ہے اسی خوف سے اس نے آپ کو ساری بات نہ بتائی ہو۔” چیف منسٹر اب جسٹس نیاز پر دوسرا حربہ آزما رہے تھے۔
”چلیں میں آپ کی مان لیتا ہوں، فرض کیا اس نے کسی خدشہ کے تحت مجھ سے حقیقت چھپائی تھی اور واقعی یہ جرم کیا تھا… تو کیا اس جرم کی سزا یہ تھی کہ اسے کسی کیس ، کسی ٹرائل کے بغیر پکڑ کر یوں جانوروں کی طرح مار دیا جاتا۔”
”میں نے آپ کو بتایا ہے ، یہ سب فوری اشتعال کے تحت ہو ا اور اپنی بھانجی کے ساتھ یہ سب ہونے کے باوجود مجھے آپ کے بیٹے کی موت کا افسوس ہے، میں اس کے لئے معذرت کرتا ہوں۔”
ایاز حیدر نے فوری طور پر چیف منسٹر اور جسٹس نیاز کے درمیان ہونے والی گفتگو میں مداخلت کی۔
”تم اور تمہاری معذرت…تمہاری معذرت میرے بیٹے کو واپس لا سکتی ہے؟… مجھے ابھی بھی تمہاری بکواس پر یقین نہیں ہے… میرا بیٹا ایسا نہیں تھا۔” جسٹس نیاز پر ایاز حیدر کی معذرت کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔
”آپ کا بیٹا کیسا تھا… یہ آپ اس فائل کو پڑھ کر جان جائیں گے۔”
عباس حیدر نے تمام گفتگو کے دوران پہلی بار مداخلت کی، اپنے سامنے پڑی ہوئی ایک فائل کو اس نے ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھے ہوئے جسٹس نیاز کی طرف کھسکا دیا۔
”پچھلے دو سالوں میں پولیس کو اس کے بارے میں بہت ساری شکایات ملتی رہی ہیں۔ مگر پولیس نے ایک بار بھی اس کے خلاف ایف آئی آر نہیں کاٹی اور صرف آپ کے عہدے کے احترام کی وجہ سے ہر بار اسے بچایا گیا۔”
”تم اپنا منہ اور بکواس بند کرلو۔” جسٹس نیاز اس پر دھاڑنے لگے۔
”سر! میں نے اپنا منہ اور بکواس ابھی تک بند ہی رکھی تھی۔ مگر آپ اپنے بیٹے کی تعریف میں جو زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ وہ اب ناقابل برداشت ہو رہے ہیں۔” عباس کا لہجہ پر سکون اور سرد تھا۔ ”سچ صرف آپ کو کہنا آتا ہے۔ دوسروں کو نہیں۔ دو دفعہ آپ کا بیٹا لبرٹی میں لڑکیوں سے پرس چھینتے ہوئے پکڑا گیا دونوں دفعہ اسے چھوڑ دیا گیا، ایک دفعہ اس نے کسی کی گاڑی چرا کر بیچ دی… آپ نے اس کو پولیس اسٹیشن جا کر ایف آئی آر سے پہلے ہی چھڑوا لیا اور پولیس نے اس آدمی کو آپ کے ساتھ معاملہ طے کر نے پر مجبورکر دیا۔”



”تم اپنی حد سے باہر نکل رہے ہو۔” جسٹس نیاز کا چہرہ اب سرخ ہو رہا تھا۔
”نہیں۔ میں آپ کو ان سب چیزوں کے ثبوت دے سکتا ہوں… آواری میں دو دفعہ اس نے شراب پی کر ہنگامہ کھڑا کیا… وہاں کے منیجرنے پولیس کو بلوایا اور پولیس اسے پولیس اسٹیشن لے جانے کے بجائے صرف آپ کی وجہ سے آپ کے گھر چھوڑ آئی۔”
”میں تمہیں اور تمہاری پولیس کو اچھی طرح سے جانتا ہوں… ڈاکو راج بنایا ہوا ہے تم لوگوں نے۔”
”ہاں پولیس بری ہے۔ پولیس صرف اس وقت اچھی تھی جب پچھلے سال آپ کی گھریلو ملازمہ کے اپنے کوارٹر میں خودکشی کے کیس کو اس نے حادثہ قرار دے کر فائل بند کر دی… اس لڑکی کے بھائی نے آپ کے بیٹے کی شکایت کی تھی… اگر وہ جج کا بیٹا نہ ہوتا تو اس وقت جیل کاٹ رہا ہوتا… ان مہربانیوں کے وقت تو آپ کو پولیس سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ اب آپ کو پولیس والے گندے اور ڈاکو لگنے لگے ہیں۔”
عباس کی آواز میں طنز تھا۔ ” یہ ابھی چند واقعات ہیں، آپ کی خواہش ہے تو میں آپ کو اور بہت سے واقعات کی تفصیلات سے بھی آگاہ کردیتا ہوں۔” جسٹس نیاز پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہے تھے۔ وہ یقیناً اس وقت اپنے آپ کو بے بسی کی انتہا پر پہنچا ہوا محسوس کر رہے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!