”اس کا خیال ہے کہ اس کے اور تمہارے درمیان کوئی انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہے۔ تم امیچور ہو اور خوابوں میں رہنے والی بھی، اس کو اپنی بیوی میں زیادہ Pragmatic (عملی) اپروچ چاہئے جو تم میں نہیں۔”
نانو چند لمحوں کے لئے رکیں اور پھر انہوں نے علیزہ سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ جوڈتھ میں انٹرسٹڈ ہے۔ اس کی جوڈتھ کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ ہے اور اس کا خیال ہے کہ ایک دو سال میں جب وہ شادی کرے گا، تو جوڈتھ سے ہی کرے گا وہ اس بات پر حیران ہو رہا تھا، کہ میں تمہارے پرپوزل کے بارے میں اس سے بات کر رہی تھی۔ اسے تو ایسی کوئی توقع ہی نہیں تھی کہ میں تمہارے لئے اس کے بارے میں سوچوں گی۔ میں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ میں تمہارے کہنے پر اس سے بات کر رہی ہوں۔”
نانو خاموش ہو گئی تھیں، شاید اب ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں رہا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے علیزہ کے پاس پوچھنے کے لئے کچھ نہیں رہا تھا۔
”میں نے تمہیں پہلے ہی ان سب باتوں کے بارے میں خبردار کیا تھا۔” نانو کا لہجہ بہت نرم تھا۔ شاید وہ علیزہ کی جذباتی کیفیت سمجھ رہی تھیں۔”مگر اب ان سب باتوں کو بھول جاؤ جو ہو گیا اسے جانے دو عمر میں ایسے کون سے سر خاب کے پر لگے ہوئے ہیں اور پھر تمہار ے لئے میرے پاس عمر سے بہتر پرپوزلز ہیں۔” انہوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ اس نے رونا شروع نہیں کیا تھا حالانکہ انہیں توقع تھی کہ وہ ان کی باتیں سننے کے بعد… لیکن وہ خاموش تھی نانو کو یوں لگا جیسے وہ شاکڈ تھی۔
وہ شاکڈ نہیں تھی، اسے صرف یقین نہیں آرہا تھا کہ عمر کے بارے میں اس سے اندازے کی اتنی بڑی غلطی ہو سکتی ہے… یا وہ ضرورت سے زیادہ بیوقوف تھی یا پھر خوش گمانی کی حدوں کو چھو رہی تھی جو بھی تھا، اس وقت اسے یونہی محسوس ہو رہا تھا، جیسے شدید سردی کے موسم میں کسی نے اسے گرم کمرے سے نکال کر یخ پانی میں پھینک دیا ہو۔
”Pragmatism (عملی) اور Realism(حقیقت پسند)” اس نے اپنے کانوں سے عمر کی آواز کی جھٹکنے کی کوشش کی، بے یقینی ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔
”بس کزن اور دوست کیا میں یہ بات مان سکتی ہوں کہ اس کے علاوہ عمر نے مجھے کبھی کچھ اور سمجھا ہی نہ ہو۔”
وہ ماؤف ذہن کے ساتھ ٹیبل پر پڑی ہوئی اپنی پلیٹ کو بے دھیانی کے عالم میں دیکھتی رہی۔
”علیزہ کے ساتھ میری کوئی انڈر سٹینڈنگ نہیں ہے۔”
انڈر سٹینڈنگ کے علاوہ اور تھا ہی کیا جو مجھے تمہاری طرف کھینچ رہا تھا۔” اس کی رنجیدگی بڑھتی جا رہی تھی۔
”ٹمپرامنٹ اور ایج ڈفرنس….! کیا مذاق ہے۔ پچھلے دس سالوں میں تو ان دونوں چیزوں میں سے کسی نے ہمارے تعلق کو متاثر نہیں کیا پھر اب یہ دونوں چیزیں درمیان میں کہاں سے آگئیں؟”
وہ ہونٹ بھینچے ٹیبل کو دیکھتی جا رہی تھی۔
”یا پھر… یا پھر یہ بس جوڈتھ ہے جو کسی خلیج کی طرح تمہار ے اور میرے درمیان حائل ہے اور میری حماقت یہ تھی کہ میں نے اتنے سالوں میں بھی تم دونوں کے تعلق کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا بھی نہیں ورنہ شاید بہت سال پہلے… تم میری زندگی سے نکل چکے ہوتے۔ Pragmatism تم ٹھیک کہتے ہو، میں نے کبھی اپنے تصورات کی دنیا سے باہر نکل کر اپنے اور تمہارے تعلق کے بارے میں غور ہی نہیں کیا تھا۔”
”علیزہ !” نانو نے اس کی غائب دماغی کو محسوس کر لیا تھا۔
”مجھے چائے بنا دیں۔” اس نے انہیں دیکھے بغیر کہا۔ نانو کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گئیں۔ وہ سلائس کو ایک بار پھر کھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ سلائس کے ٹکڑوں کو حلق سے نیچے اتارنے کے لئے بھی اس قدر جدوجہد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ا س کا اندازہ اسے پہلی بار ہوا تھا۔
نانو نے چائے بنا کر اس کے سامنے رکھ دی۔ سر جھکائے کسی مشین کی طرح اس نے سلائس ختم کیا، چائے پی اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔
نانو نے اسے روکا نہیں۔ وہ لاؤنج سے نکل گئی۔ نانو نے اس کے جانے کے بعد شہلا کو فون کیا۔ انہوں نے مختصراً اسے فون پر اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو بتانے کے بعد آنے کے لئے کہا۔
آدھے گھنٹہ کے بعد جب شہلا اس کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ کارپٹ پر بیٹھی اپنے سامنے ایزل پر رکھی ایک پینٹنگ کو مکمل کرنے میں مصروف تھی۔
اس نے شہلا سے رسمی سی ہیلو ہائے کرنے کے بعد ایک بار پھر کینوس اسٹروک لگانے شروع کر دیئے، شہلا اس سے کچھ فاصلے پر فلور کشن پر بیٹھ گئی۔ علیزہ خاموشی سے کینوس پر اسٹروک لگاتی رہی۔ اس نے شہلا سے کوئی بات کرنے کی کوشش نہیں کی وہ واقعی مصروف تھی۔ مصروف نظر آنے کی کوشش کر رہی تھی یا پھر شہلا کو نظر انداز کرنا چاہتی تھی۔شہلا اندازہ نہیں کر سکی۔ مگر اس کا چہرہ اتنا بے تاثر تھا کہ شہلا کو اس سے بات شروع کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔
اسے ویسے بھی اپنے اندازے کے غلط ہونے پر حیرت ہو رہی تھی۔نانو سے بات کرنے کے بعد اس کا خیال تھا کہ جب وہ علیزہ کے پاس آئے گی تو وہ اسے روتا ہوا پائے گی اور وہ سارا راستہ یہی سوچتی ہوئی آئی تھی کہ اسے علیزہ سے کیا کیا کہنا ہے۔ اسے کس طرح تسلی دینی ہے۔