Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”ہم میں میچورٹی صرف تب آتی ہے جب ہمیں اس طرح ریجیکٹ کیا جاتا ہے۔ جیسے اب میں میچور ہو گئی ہوں۔” اس نے مسکراتے ہوئے پیلٹ نیچے رکھ دی۔
”اگر دنیا میں بیوقوفی اور حماقت کا کوئی سب سے بڑا ایوارڈ یا میڈل ہوتا تو میں اس کے لئے علیزہ سکندر کا نام ضرور بھجواتی۔” وہ بڑبڑائی ”اور اس سال کم از کم میرے علاوہ کوئی اور اس ایوارڈ کا حقدار ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ a die-hard، فول ۔” شہلا خاموشی سے اسے بولتا دیکھتی رہی۔
”عمر کا خیال ہے کہ میری اور اس کی انڈر اسٹینڈنگ ہی نہیں ہے اور میں ہمیشہ یہی سمجھتی رہی کہ میری اگر کسی کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ ہے تو وہ عمر ہی ہے۔” اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا برش بھی پیلٹ میں رکھ دیا۔ ”ویسے انڈر سٹینڈنگ کس کو کہتے ہیں؟”شہلا جانتی تھی یہ سوال نہیں تھا۔
”یہ سب میری حماقت تھی۔ تم نے ٹھیک کہا تھا۔ عمر کو اگر مجھ میں دلچسپی ہوتی تو وہ پچھلے دس سال میں کبھی تو مجھ سے اس دلچسپی کا اظہار کرتا۔” وہ مدھم آواز میں بول رہی تھی۔
”زندگی میں ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں، اب اس سب کو بھول جاؤ۔ اپنے آپ کو اتنا Condemn(ملامت)یا Criticize (تنقید) کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”



Criticize “یا Condemn نہیں کرنا چاہئے تو کیا کرنا چاہئے۔ اپنی تعریف کرنی چاہئے۔ کہ بہت اچھا کام کیا ہے۔” اس کی آواز میں موجود ملال بہت واضح تھا۔
”کہیں باہر چلتے ہیں۔” شہلا نے یک دم بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی ۔
”ہاں، کہیں باہر چلتے ہیں۔” شہلا کو حیرت ہوئی جب وہ بلا تامل تیار ہو گئی۔
”سارا دن پھرتے ہیں، کہیں آوارہ گردی کرتے ہیں اور تم مجھ سے عمر کے علاوہ ہر چیز کے بارے میں بات کر سکتی ہو بس اس کے بار ے میں کچھ نہ کہنا۔” وہ کارپٹ سے اٹھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”ٹھیک ہے۔” شہلا بخوشی رضامند ہو گئی، اسے اس کی تجویز پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔
”تمہیں ذوالقرنین یاد ہے؟” شہلا گاڑی ڈرائیور کر رہی تھی جب علیزہ نے یک دم اس سے پوچھا۔
”اچھی طرح مگر تمہیں اس وقت اس کا خیال کیسے آگیا؟” شہلا نے کچھ حیران ہو کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”دس سال پہلے میں نے عمر کے بارے میں یہ غلط اندازہ لگایا ہوتا ، تو آج میں اسی طرح خودکشی کی کوشش کرتی جس طرح ذوالقرنین کے ساتھ بریک اپ کے بعد کی تھی۔ دس سال پہلے میں نے ذوالقرنین کے ہاتھوں جتنی ہتک محسوس کی تھی، آج بھی اتنی ہی کی ہے۔”
وہ بات کرتے کرتے رک کر گردن موڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
”دوسروں پر انحصار کرنے سے زیادہ تباہ کن چیز اور کوئی نہیں ہوتی۔ مجھے عمر پر کبھی اس حد تک انحصار نہیں کرنا چاہئے تھا۔”
”علیزہ تم ضرورت سے زیادہ جذباتی ہو رہی ہو۔” شہلا نے نرمی سے اسے ٹوکا۔
”زندگی میں بہت دفعہ ، بہت سے لوگوں کے لئے ہم کچھ محسوس کرتے ہیں پھر شاید کچھ توقعات بھی لگا بیٹھتے ہیں… بعض دفعہ ہر چیز ویسے نہیں ہوتی جیسے ہم چاہتے ہیں۔” وہ گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے اسے سمجھا رہی تھی۔
”لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان خود کو Self-condemnation اور خود ترسی کا شکار بنا دے۔”
”تم بہت آسانی سے مجھے نصیحت کر سکتی ہو۔” علیزہ نے اس کی باٹ کاٹ دی۔” تم میری فیلنگز کو ، میری تکلیف کو محسوس کر ہی نہیں سکتیں۔”
”علیزہ! میں۔۔۔” شہلا نے کچھ کہنا چاہا، علیزہ نے رنجیدگی سے اس کی بات کاٹ دی۔



”تمہارے پاس سب کچھ ہے۔ ماں باپ… بہن بھائی اور جس شخص کو تم نے پسند کیا، اس سے تمہاری انگیجمنٹ ہو گئی… ہر رشتہ ہے تمہارے پاس۔” اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ ”میرے پاس ان میں سے ایک بھی نہیں ہے سات سال سے میں نے باپ کی شکل نہیں دیکھی اور وہ اسی ملک میں ہے۔ چار سال سے میں اپنی ماں سے نہیں ملی، ان دونوں کی ڈائیوورس اور دوسری شادی کے بعد میں اتنے سالوں میں ان سے کتنی بار ملی ہوں۔ میں تمہیں گن کر بتا سکتی ہوں۔ پچھلے دس سال میں میرا ہر رشتہ اور تعلق عمر سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جاتا ہے… میرے لئے وہ میری پوری فیملی بن چکا ہے۔ ہر رشتہ۔۔۔” وہ چند لمحوں کے لئے رکی۔
”تمہیں اتنے رشتوں میں سے اگر کسی ایک رشتہ سے محروم ہونا پڑے تو تمہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کی کمی پوری کرنے کے لئے دوسرے رشتے ہیں، دوسرے لوگ ہیں، میرے پاس دوسرا کوئی نہیں ہے۔”
I get Umar I get everything.
”I lose him I lose everything
شہلا خاموش رہ گئی، وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔
”تم ٹھیک کہتی ہو، ہمیں کسی اورٹاپک پر بات کرنی چاہئے۔ ” شہلا نے یک دم کہتے ہوئے بات کا موضوع بدلنا چاہا۔
”ایسا کرتے ہیں آج کہیں آوارہ گردی کرتے ہیں سارا دن گھر نہیں جاتے۔ بس شام کو جائیں گے۔ بلکہ یوں کرو آج رات تم میرے ساتھ میرے گھر رہو یا پھر میں تمہارے ساتھ رہ لوں گی۔” وہ اسے تسلی دے رہی تھی۔ علیزہ نے کچھ بھی کہنے کی بجائے صرف اسے دیکھا۔
”ہاں ٹھیک ہے، آج کا دن اکٹھے گزارتے ہیں باہر ہی۔” وہ بڑبڑائی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!