اگلے کئی دن وہ اسی آسیب کی گرفت میں رہی۔ ہر چیز اپنی اہمیت کھو چکی تھی۔ وہ دن اور رات کے کسی بھی لمحے میں عمر کے خیال سے غافل نہیں رہتی تھی اور اگر کبھی کچھ دیر کے لیے کوئی اور خیال اس کے ذہن میں آتا بھی تو صرف چند لمحوں کے لیے اس کے بعد وہ پھر اسی تکلیف دہ خیال میں لوٹ جاتی تھی۔
کئی ہفتوں کے بعد نانو نے ایک بار پھر اس سے جنید ابراہیم کے بارے میں بات کی تھی۔ اس نے اقرار یا انکار کچھ بھی نہیں کیا تھا۔
”آپ جو ٹھیک سمجھیں، کریں۔” اس نے صرف یہ کہا تھا۔
جنید کے ساتھ اس کی نسبت کتنی برق رفتاری کے ساتھ طے ہوئی تھی، اسے اس کی توقع بھی نہیں تھی۔ نانو پہلے ہی ثمینہ اور سکندر سے جنید کے بارے میں بات کر چکی تھیں۔ دونوں بخوشی اس پر پوزل کو قبول کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔
سکندر مسقط سے کراچی شفٹ ہونے کے بعد پہلی بار اس سے ملنے لاہور آئے تھے۔ ان کی یہ آمد بنیادی طور پر جنید سے ملاقات کے لیے تھی اور وہ خاصے مطمئن واپس گئے تھے۔
”کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم جنید سے ایک بار پھر مل لو۔” باقاعدہ طور پر جنید کے گھر والوں کو اس پر پوزل کے لیے اپنی رضا مندی دینے سے پہلے نانو نے ایک دن اس سے کہا۔
”میں پہلے ہی اس سے مل چکی ہوں۔ ایک بار اور مل کر کیا کر لوں گی؟” اس نے دوٹوک انکار کر دیا۔
”پھر بھی یہ ضروری ہے…پہلے کی بات اور تھی۔۔۔”
علیزہ نے نانو کی بات کاٹ دی۔ ”کیا وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے؟”
”نہیں۔ اس نے ایسی کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا…میں خود یہ چاہتی ہوں کہ تم دونوں ایک بار اور آپس میں مل لو بلکہ بہتر یہ ہے کہ تم اس کے سارے گھر والوں سے مل لو۔ یہ اس کی امی کی خواہش ہے۔” نانو نے اسے بتایا۔
”میں اس کے تقریباً سارے گھر والوں سے ہی مل چکی ہوں۔ وہ پچھلے کئی ہفتے سے آ جا رہے ہیں ہمارے گھر۔”علیزہ نے کہا۔
”ٹھیک ہے، وہ آتے رہے ہیں مگر تم سے اتنی بے تکلفی سے گفتگو تو نہیں ہوئی۔ جنید کی امی چاہتی ہیں کہ تم ان کے گھر کھانے پر آؤ۔ کچھ وقت ان کے ساتھ گزارو تاکہ تمہیں ان کے گھر کے ماحول کا اچھی طرح اندازہ ہو سکے۔”
”اس کا فائدہ کیا ہے؟” اسے الجھن ہوئی۔ ”مجھے جنید کو جتنا جاننا تھا، میں جان چکی ہوں۔”
”اگر اس کی امی کی خواہش ہے کہ تم وہاں کچھ وقت گزارو تو تمہیں اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔” نانو نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”کیا وہ مجھے اکیلے انوائیٹ کر رہی ہیں؟” اس نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد نانو سے پوچھا۔
”نہیں، وہ مجھے بھی ساتھ کھانے پر بلا رہی ہیں۔”
علیزہ نے ایک نظر انہیں دیکھا اور پھر کہا۔ ”ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں، آپ انہیں ہمارے آنے کے بارے میں بتا دیں۔”
تیسرے دن شام کو وہ نانو کے ساتھ جنید کے گھر موجود تھی۔
گیٹ پر انہیں جنید نے ہی ریسیو کیا تھا۔ رسمی سلام دعا کے دوران ان دونوں کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔
”مجھے آپ کو یہاں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے۔” نانو کے اس کی امی کے ساتھ آگے چلے جانے پر اس نے علیزہ سے کہا ”اور یہ رسمی الفاظ نہیں ہیں۔”
اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ علیزہ کوشش کے باوجود اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ لانے میں ناکام رہی۔ ہر چیز پہلے سے زیادہ کھو کھلی لگنے لگی تھی۔ ساتھ چلتے ہوئے اس شخص سے اسے یکدم خوف آنے لگا تھا۔
”میری خاصی دیرینہ خواہش پوری ہوئی ہے آپ کو یہاں دیکھ کر۔” وہ ساتھ چلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”اور یہاں تک پہنچنے کے لیے میری ایک دیرینہ خواہش کا خون ہوا ہے۔” اس نے سوچا۔
جنید کے گھر والوں کے ساتھ اگلے چند گھنٹے اس نے بہت مشکل سے گزارے تھے۔ وہ ایک اچھی فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ وہ بھوربن میں ہونے والی اس سے اپنی پہلی ملاقات میں ہی جان چکی تھی حالانکہ تب تک وہ اس کی فیملی سے ملی تھی نہ اس نے انہیں دیکھا تھا۔ اسے ان کے بارے میں اور کچھ بھی جاننے کی خواہش نہیں تھی۔
جنید کا گھرانہ بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بہت روایتی تھا۔ وہ سب آپس میں بہت بے تکلف تھے اور علیزہ کی وہاں موجودگی اسی بے تکلفی کا ایک ثبوت تھی۔
جنید کی چھوٹی دونوں بہنیں گھر پر موجود تھیں۔ اس کا چھوٹا بھائی گھر پر نہیں تھا نہ ہی اس کی بڑی بہن جس سے وہ پہلے مل چکی تھی مگر اس کے باوجود اندازہ کر سکتی تھی، گفتگو کے دوران بار بار جنید کی امی اور پاپا کی طرف سے ان کے ذکر کی وجہ سے کہ ان کی غیر موجودگی سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا تھا۔
وہ جنید کی دادی اور دادا سے بھی ملی تھی۔ اسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ دونوں علی گڑھ کے گریجویٹس تھے۔ اس کے دادا بہت عرصہ ایک انگلش اخبار سے منسلک رہے تھے ، وہ فری لانس جرنلسٹ تھے اور تحریک پاکستان کے بارے میں بہت سی کتابیں بھی تحریر کر چکے تھے۔
جنید کے والد سول انجینئر تھے اور اس کمپنی کی بنیاد انہوں نے ہی رکھی تھی جس میں اب جنید ابراہیم کام کر رہا تھا۔ اگرچہ اس کی امی اور دادی ورکنگ ویمن نہیں تھیں مگر وہ اس کے باوجود بہت ایکٹو تھیں۔ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے بہت سے کاموں میں وہ دونوں حصہ لیتی رہی تھیں۔