چند گھنٹے وہاں گزارنے کے دوران اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ وہ سب اسے پہلے ہی اس گھر کے ایک فرد کی حیثیت دے چکے تھے۔ اب جو کچھ ہو رہا تھا وہ صرف رسمی نوعیت کا تھا۔
رات کے کھانے کے بعد جب وہاں سے واپس آئی تو پہلے سے زیادہ خاموش اور مضطرب تھی۔ نانو نے اس کے چہرے کے تاثرات سے اس کی دلی کیفیات جاننے کی کوشش کی، وہ متفکر ہو گئیں۔ وہ کسی طرح بھی خوش یا مطمئن نظر نہیں آرہی تھی۔
”علیزہ…!کیسے لگے تمہیں وہ لوگ؟” انہوں نے اسے کریدنے کی کوشش کی۔
”اچھے ہیں۔” وہ جتنا مختصر جواب دے سکتی تھی اس نے دیا۔ نانو نے بے اختیار سکون کا سانس لیا۔
”تو پھر تم اتنی پریشان نظر کیوں آرہی ہو؟ وہاں بھی تم بہت چپ چپ تھیں۔”
”کچھ نہیں آپ کو یوں ہی محسوس ہو رہا ہے۔” اس نے انہیں ٹالنے کی کوشش کی۔ نانو کچھ دیر خاموش رہیں۔ ”میں جنید کے گھر والوں کو تمہاری رضامندی دے دوں؟” انہوں نے کچھ دیر کے بعد پوچھا۔
”جیسے آپ کی مرضی۔” اس نے تھکے تھکے انداز میں کہا۔
”وہ لوگ فوری شادی نہیں چاہتے، ایک ڈیڑھ سال تک شادی چاہتے ہیں۔ جنید کو چند کورسز کے لیے سنگاپور جانا ہے۔ پھر کچھ عرصہ کے لیے کوئٹہ بھی رہنا ہے، وہاں کوئی پروجیکٹ ہے اس کا۔” وہ اسے بتانے لگیں۔
”ابھی وہ چاہتے ہیں کہ انگیجمنٹ ہو جائے۔” وہ خالی الذہنی کے عالم میں ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”میں نے ثمینہ سے بات کی تھی۔ وہ بہت خوش ہے، تمہاری انگیجمنٹ کے لیے آنا چاہتی ہے۔ اس کی فلائٹ کا پتا چل جائے تو ہم لوگ انگیجمنٹ کی ڈیٹ طے کر لیں گے۔” نانو اپنی رو میں اسے بتاتی جا رہی تھیں وہ ذہنی طور پر کہیں اور پہنچی ہوئی تھی۔
”ثمینہ چاہتی ہے کہ خاصی دھوم دھام سے تمہاری انگیجمنٹ ہو، پوری فیملی آرہی ہے اس کی۔”
”میں جاؤں نانو ؟” وہ یک دم کھڑی ہو گئی۔ نانو اسے کھڑا ہوتے دیکھ کر خاموش ہو گئیں۔
”ٹھیک ہے تم چلی جاؤ” وہ انہیں شب بخیر کہتے ہوئے ان کے کمرے سے نکل آئی۔
اگلے دو تین ہفتے اس کے لیے بہت صبر آزما ثابت ہوئے۔ ثمینہ اپنی فیملی کے ساتھ اس کی انگیجمنٹ میں شرکت کے لیے پاکستان آئی تھیں۔
وہ بڑے جوش و خروش سے آتے ہی اس کی انگیجمنٹ کی تیاریوں میں لگ گئی تھیں، ہر روز علیزہ کو ساتھ لے کر وہ مارکیٹس کی خاک چھاننے نکل کھڑی ہوتیں۔
انہیں علیزہ کے رویے سے بالکل یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ خوش نہیں ہے یا کسی چیز کی وجہ سے پریشان ہے اور علیزہ کو اس بات پر حیرت نہیں ہوئی۔ وہ اس کی ماں تھیں مگر اتنے سال ایک دوسرے سے کٹ کر رہنے کے بعد ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ اس کے چہرے پر جھلکنے والے ہر رنگ کو پہچان سکیں عبث تھا۔
اپنے سوتیلے بہن بھائی اسے خونی رشتوں سے زیادہ مہمان لگ رہے تھے نہ صرف وہ بلکہ ثمینہ بھی اور علیزہ اپنی پوری کوشش کر رہی تھی کہ وہ مہمانوں سے اچھے طریقے سے پیش آئے۔
منگنی والی شام سٹیج پر جنید کے ساتھ بیٹھے اس نے کچھ فاصلے پر عمر کو دیکھا تھا اس کے چہرے پر موجود مصنوعی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ عمر بہت خوش باش نظر آرہا تھا۔ متحرک اور زندہ دل، وہ سٹیج کی طرف ہی آرہا تھا۔
فوٹو گرافر اس وقت مختلف رشتہ داروں کے ساتھ ان دونوں کی تصویریں بنا رہا تھا۔ عمر سٹیج پر آنے کے بعد سیدھا جنید کی طرف گیا۔ جنید اٹھ کر عمر سے گلے ملا باقی لوگوں کا تعارف جنید سے باری باری کروایا گیا تھا چند کزنز کے سوا۔
علیزہ کو حیرت ہوئی عمر اور جنید کو ایک دوسرے سے تعارف کی ضرورت نہیں پڑی، کیا عمر جنید سے واقف تھا؟
”مبارک ہو علیزہ…!” اس نے علیزہ کے سامنے کھڑے ہو کر اسے مخاطب کیا۔ وہ اس کے سیاہ چمکتے جوتوں کو دیکھتی رہی۔ اس نے ان جوتوں کو دیکھتے ہوئے ہی اس کا شکریہ ادا کیا تھا۔
وہ کچھ دیر جنید کے ساتھ باتیں کرتارہا پھر علیزہ نے اسے سٹیج سے اترتے دیکھا۔
اس کے بعد علیزہ نے اسے ہال میں کئی جگہ پر مختلف لوگوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف دیکھا، وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس پر سے اپنی نظر اور دھیان نہیں ہٹا سکی، جنید یک دم پس منظر میں چلا گیا تھا بلکہ وہ شاید کبھی پیش منظر میں آیا ہی نہیں تھا۔
٭٭٭