رات دس بجے کے قریب وہ سب واپس آئے تھے۔ شہلا، علیزہ کے ساتھ تھی اور اسے رات وہیں اس کے ساتھ رکنا تھا۔
پورا گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے سارے انکلز اپنی فیملیز کے ساتھ وہاں موجود تھے، اس کے کزنز میں سے کچھ منگنی کی تقریب میں شرکت کے بعد ہوٹل سے ہی واپس چلے گئے تھے مگر ابھی بھی کافی کزنز وہیں تھے جنہیں اگلے دن واپس جانا تھا۔
ایک لمبے عرصے کے بعد لاؤنج میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے درمیان خوشگوار گپ شپ ہو رہی تھی۔
وہ بھی کپڑے تبدیل کرنے کے بعد کافی دیر اپنی کزنز کے ساتھ گفتگو کرتی رہی پھر وہ سونے کے لیے اپنے کمرے میں آگئی۔
اس نے عمر کو بھی وہیں موجود دیکھا تھا اور اسے حیرت ہو رہی تھی کہ وہ تقریب کے فوراً بعد واپس کیوں نہیں گیا۔
شہلا کچھ دیر اس کے ساتھ باتیں کرتی رہی پھر وہ دونوں لائٹ بند کرکے سونے لیٹ گئیں مگر بستر پر لیٹتے ہی علیزہ کی آنکھوں سے نیند غائب ہو گئی تھی۔ نائٹ بلب کی ہلکی سی روشنی میں وہ چھت کو دیکھتے ہوئے پچھلے کچھ گھنٹوں کے بارے میں سوچتی رہی۔ اس کے لیے سب کچھ ایک بھیانک خواب کی طرح تھا، جواب شروع ہوا تھا اور شاید کبھی ختم نہیں ہونے والا تھا۔
وہ لائٹ جلائے بغیر اپنے بیڈ سے نیچے اتر گئی، شہلا گہری نیند میں تھی۔ علیزہ جانتی تھی وہ ایک بار سونے کے بعد اتنی معمولی سی حرکت پر نہیں جاگے گی۔
اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ باہر کوریڈور میں نکل آئی۔ لاؤنج سے ابھی بھی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ یقیناً وہ سب ابھی بھی وہاں موجود تھے۔ وہ لاؤنج میں جانے کے بجائے گھر کے پچھلے حصے کی طرف آئی اور دروازہ کھول کر عقبی لان میں نکل آئی۔
باہر عجیب سی خاموشی نے اس کا استقبال کیا تھا۔ دور بیرونی دیوار کے پاس لگی لائٹس اگرچہ تاریکی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھیں، لان بڑی حد تک تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، تاریکی، خاموشی اور تنہائی اسے اس وقت ان ہی چیزوں کی ضرورت تھی۔
نیچے لان میں اترنے کے بجائے وہ ماربل کی سیڑھیوں میں سب سے اوپر والی سیڑھی پر بیٹھ گئی۔ بایاں ہاتھ اپنی گود میں رکھتے ہوئے اس نے دایاں ہاتھ ماربل کے فرش پر رکھ دیا۔ فرش کی ٹھنڈک اسے پوروں کے ذریعے اپنے اندر اترتی محسوس ہوئی۔
”تو آج بالآخر آپ کے یوٹوپیا کا خاتمہ ہو گیا اور اب ایلس ونڈر لینڈ سے باہر آگئی ہے۔”
باہر کی خاموشی نے اس کے اندر کی خاموشی کو توڑ دیا تھا۔ وہ بہت آہستگی سے فرش پر انگلیوں کی پوریں پھیرنے لگی۔
”کاش معجزے ہونا بند نہ ہوتے، ایک معجزہ میری زندگی میں بھی ہوتا، میں آنکھیں بند کروں اور پھر کھولوں تو مجھے پتا چلے یہ سب خواب تھا۔ حقیقت یہ ہو کہ جنید کی جگہ پر عمر ہو جو ڈتھ اور جنید ہم دونوں کی زندگی میں موجود ہی نہ ہوں۔” اس نے سوچتے ہوئے آنکھیں بند کیں پھر آنکھیں کھولیں۔ خواب ختم نہیں ہوا، حقیقت بدل نہیں سکی۔ وہ آنکھوں میں نمی لیے مسکرائی۔
ہم کہ دشت جہاں کو آباد کیے بیٹھے ہیں
آرزوئے یار کو اب خاک کیے بیٹھے ہیں
خواب کے تار سے خواہش کو رفو کرتے
دامنِ دل کو اب چاک کیے بیٹھے ہیں
اس نے زیر لب اس غزل کے شعروں کو دہرانے کی کوشش کی جنہیں وہ دو سال سے بڑی باقاعدگی سے سنتی آرہی تھی۔
کاش وہ آئے جلائے یہاں کوئی چراغ
دل کے دربار کو ہم طاق کیے بیٹھے ہیں
اس نے دور دیوار پر لگی ہوئی لائٹس پر نظریں جمادیں۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ لائٹس بھی بجھ جائیں۔ مکمل تاریکی، ویسی جیسی اس وقت میرے اندر ہے۔ کیا چند لمحوں کے لیے ویسی تاریکی نہیں ہو سکتی ہر طرف؟ اس کے اندر خواہش ابھری۔
”علیزہ !” اس نے بے اختیار گردن موڑ کر پیچھے دیکھا پھر اسی رفتار سے گردن واپس موڑی۔ وہ اپنے چہرے کے تاثرات کو چھپانا چاہتی تھی ، پھر اسے یاد آیا یہ کام پہلے ہی وہاں چھائی ہوئی تاریکی کر رہی تھی۔ اس نے بھی عمر کو اس کی آواز اور قدوقامت سے ہی پہچانا تھا اور عمر نے اسے کیسے پہچانا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔
وہ اتنے دبے قدموں آیا تھا کہ اسے اس کی آمد کی خبر ہی نہیں ہوئی یا پھر شاید وہ اپنی سوچوں میں اس قدر گم تھی کہ اپنے اردگرد ہونے والی ہر چیز سے مکمل طور پر بے نیاز ہو گئی تھی۔