Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟” وہ اب اس کے عقب میں کھڑا پوچھ رہا تھا۔
”کچھ نہیں ویسے ہی نیند نہیں آرہی تھی اس لیے باہر آگئی۔” اس نے اپنی آواز پر قابو رکھتے ہوئے اسے دیکھنے کی کوشش کیے بغیر کہا۔ اس کا خیال تھا، وہ اسے اندر جانے کا کہے گا…یا پھر اندر جانے کی ہدایت دے کر خود چلا جائے گا۔ ایسا نہیں ہوا۔
وہ اس کی بات کے جواب میں کچھ کہے بغیر اس کے عقب میں خاموشی سے کھڑا رہا۔ پھر علیزہ نے اسے چند قدم آگے بڑھتے اور اسی سیڑھی پر بیٹھتے دیکھا جس پر وہ بیٹھی تھی۔
اس کا دل چاہا وہ اٹھ کر وہاں سے بھاگ جائے یا پھر پوری قوت سے دھکا دے کر اسے وہاں سے دھکیل دے وہ چند لمحے اور اس کے پاس بیٹھتا تو اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی اس کی ساری کوششیں ناکام ہو جاتیں اور وہ اب عمر جہانگیر کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔



اس کی طرف دیکھے بغیر گردن سیدھی رکھے، وہ دور دیوار پر موجود لائٹس کو دیکھتی رہی مگر اس کی ساری حسیات بالکل بیدار تھیں۔ وہ اس کے سانس کی آواز سن رہی تھی۔ وہ اس کے کولون کی مہک کو محسوس کر رہی تھی۔ اسے اپنی گردن سیدھی رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔
وہ سیڑھیاں دونوں کے لیے نئی نہیں تھیں، وہ بہت بار وہاں بیٹھے تھے دن کی روشی میں۔ رات کی تاریکی میں مگر اس بار خاموشی ایک تیسرے فرد کی طرح ان دونوں کے درمیان موجود تھی۔ پہلے وہ کبھی نہیں آئی تھی، وہ دونوں یہاں بیٹھ کر گپیں ہانکتے رہتے، گفتگو میں کسی بھی وقفے کے بغیر، انہی سیڑھیوں پر بیٹھ کر عمر نے اسے بہت سے لطیفے سنائے تھے۔ وہ ہر بار لطیفہ سنانے سے پہلے اس سے کہتا۔ ”تمہیں ایک جوک سناتا ہوں۔”
علیزہ ہنسنا شروع ہو جاتی۔ ”کم آن یار! پہلے سن تو لو۔ تم تو پہلے ہی ہنسنا شروع ہو جاتی ہو۔” وہ اسے ٹوکتا وہ سنجیدہ ہو جاتی۔
”ایک باپ اپنے بچے کو ایک سائیکولوجسٹ کے پاس لے کر گیا۔” وہ لطیفہ شروع کرتا پھر رک کر اضافہ کرتا۔” میری طرح کے بچے کو، اس نے سائیکولوجسٹ سے کہا کہ یہ بچہ بہت ضدی ہے۔ اس نے مجھے اور باقی گھر والوں کو بہت پریشان کر دیا ہے۔ اپنی فضول ضدوں کی وجہ سے۔ میں چاہتا ہوں آپ اس کا علاج کریں تاکہ یہ اپنی اس عادت سے باز آ جائے۔
سائیکولوجسٹ نے باپ کی بات غور سے سنی اور پھر بچے کو سمجھانے کے بجائے باپ سے کہا کہ وہ کچھ تحمل سے کام لے، وقت گزرنے کے ساتھ وہ خود ہی یہ عادت چھوڑ دے گا۔
باپ نے کہا۔ ”اس وقت جو ضد کر رہا ہے اسے ہم نہیں مان سکتے اور یہ چھوڑنے پر تیار نہیں۔”
سائیکولوجسٹ نے پوچھا ”اب یہ کون سی ضد کر رہا ہے۔”
”یہ کہتا ہے مجھے ایک کینچوا لا کر دیں، میں وہ کھاؤں گا۔ اب آپ خود بتائیں کہ میں اسے کینچوا کیسے کھانے دے سکتا ہوں۔”



سائیکولوجسٹ نے باپ کو سمجھایا کہ بچے پر سختی کرنے سے اس پر نفسیاتی طور پر برا اثر پڑے گا۔ بہتر ہے کہ آپ اسے کینچوا کھانے دیں۔”
باپ کچھ پس و پیش کے بعد مان گیا۔
سائیکولوجسٹ نے اپنے اسسٹنٹ کو بھجوا کر ایک کینچوا منگوایا اور بچے کے سامنے میز پر رکھ دیا۔
بچے نے ایک نظر کینچوے پر ڈالی اور پھر بڑے آرام سے کہا۔
”آپ اس کینچوے کے دو ٹکڑے کریں۔ ایک آپ کھائیں، ایک میں کھاؤں گا۔”
سائیکولوجسٹ اس کے مطالبے پر گڑبڑا گیا۔
”دیکھا میں نے بتایا ہے نا کہ یہ بہت فضول ضدیں کرتا ہے۔” باپ نے کہا۔
سائیکولوجسٹ نے باپ کو تسلی دی اور ایک چاقو کے ساتھ کینچوے کے دو ٹکڑے کیے اور ایک ٹکڑا اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لیا اور اس نے بچے سے کہا ۔”اب تم اپنا ٹکڑا کھاؤ۔”
بچے نے سائیکولوجسٹ کا چہرہ دیکھا اور کہا۔
”آپ نے میرا ٹکڑا کھا لیا۔”
علیزہ کو بے اختیار گھن آئی ”یہ کیا جوک تھا۔ وہ بچہ اور سائیکولوجسٹ دونوں پاگل تھے۔ کینچوا کیسے کھا سکتے ہیں؟” وہ ہنسنے کے بجائے جھرجھری لے کر پوچھتی۔
”جوک تھا بھئی…حقیقت تو نہیں تھی۔” وہ اسے یاد دلاتا۔
”مگر پھر بھی کینچوے۔” اسے ایک بار پھر جھرجھری آئی۔
”اچھا…اچھا چلو، میں تمہیں ایک اور جوک سناتا ہوں۔” وہ جلدی سے ہاتھ اٹھا کر کہتا ”ایک جرنلسٹ ایک مینٹل ہاسپٹل میں گیا وہاں وہ مختلف وارڈز میں پھر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو بہت خاموشی سے ہاتھ میں اخبار لیے کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس نے بہت شاندار قسم کا سوٹ پہنا ہوا تھا، جرنلسٹ اس کے پاس گیا اور حیرانی سے پوچھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!