Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”کیا آپ پاگل ہیں؟”
اس نے اخبار سے نظر اٹھا کر بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ”نہیں۔”
”تو پھر آپ کو یہاں کیوں رکھا ہے؟” جرنلسٹ نے پوچھا۔
”کیونکہ میں نے ایک کتاب لکھی تھی دو ہزار صفحات کی۔”
جرنلسٹ کو شدید حیرت ہوئی اس نے پوچھا۔ ”آپ نے کس چیز کے بارے میں کتاب لکھی تھی؟”
”گھوڑوں کے بارے میں۔” اس نے بڑی سنجیدگی سے بتایا۔
جرنلسٹ غصے کے عالم میں ڈاکٹر کے پاس گیا اور اس سے کہا۔ ” آپ نے بے سوچے سمجھے ایک ذہین آدمی کو پکڑ کر یہاں بند کر دیا جس نے گھوڑوں پر دو ہزار صفحات پر مشتمل کتاب لکھی ہے۔”
ڈاکٹر نے بڑے سکون سے اس کی بات سنی اور کہا۔
”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اس شخص نے گھوڑوں پر واقعی دو ہزار صفحات کی ایک کتاب لکھی ہے مگر اس کی کتاب کے دو ہزار صفحات پر صرف ایک ہی بات ہے۔”



”وہ کیا؟” جرنلسٹ نے کچھ تجسس کے عالم میں پوچھا۔ ڈاکٹر نے ایک گہری سانس لی اور کہا ”دگڑ…دگڑ۔”
وہ لطیفہ سنانے کے بعد علیزہ کو دیکھتا جو اب بھی پورے انہماک اور سنجیدگی کے ساتھ اسے دیکھ رہی ہوتی۔ ”سمجھ میں نہیں آیا نا؟” وہ بڑی ہمدردی سے پوچھتا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہتی۔ انکار اور اقرار دونوں مشکل تھے۔
”آپ آسان جوکس سنایا کریں۔”
”مثلاً…ہاں ایسے والے ایک بچہ ماں سے کہتا ہے۔ ”ممی آج مجھے ٹیچر نے ایک ایسے کام کے لیے سزا دی جو میں نے کبھی کیا ہی نہیں۔” ماں حیرانی سے کہتی ہے۔
”کون سا کام؟”
”ہوم ورک۔” بچہ مزے سے کہتا ہے۔
وہ کندھے اچکاتا ہوا لطیفہ ختم کرتا۔ علیزہ ہنسنے لگتی۔ وہ بے اختیار گہرا سانس لیتے ہوئے کہتا۔
”وہ جو آپ میرے جوک سنانے سے پہلے ہنستی ہیں نا، وہی ٹھیک ہے۔ کم از کم مجھے یہ اطمینان تو ہو گا کہ تمہاری حس مزاح اچھی ہے۔” وہ مصنوعی اندازسے خفگی اسے ڈانٹتا۔
وہاں بیٹھے بیٹھے علیزہ کو بہت کچھ یاد آرہا تھا، چاروں طرف چھائی تاریکی ایک ایسا گنبد بن گئی تھی جس کے اندر اسے اپنی اور عمر کی آوازوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی ”اور شاید آج ہم آخری بار یہاں ان سیڑھیوں پر ایک دوسرے کے اتنے قریب بیٹھے ہیں۔”
اس نے دل گرفتی کے عالم میں سوچا۔



”تم آج بہت اچھی لگ رہی تھیں۔” عمر نے یک دم خاموشی کو توڑا۔
”تمہارے علاوہ ہر ایک کو۔” اس نے سوچا۔
”جنید بہت خوش قسمت ہے۔” وہ کہہ رہا تھا۔
”اور میں بہت بدقسمت ہوں۔” اس کے جواب اس کے اندر گونج رہے تھے۔
علیزہ کی مستقل خاموشی شاید اس کے لیے غیر متوقع تھی۔ وہ چند لمحوں کے لیے خود بھی خاموش ہو گیا۔
”آپ واپس نہیں گئے؟” علیزہ نے اچانک اس سے پوچھا۔
”میں جانا چاہ رہا تھا۔ گرینی نے روک لیا۔ سب فیملی ممبرز اکٹھے ہوئے تھے اس لیے۔” وہ مدھم آواز میں بتانے لگا۔
”ابھی بھی سب اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ صرف میں باہر آیا ہوں۔ کچھ دیر واک کرنا چاہ رہا تھا۔ تمہیں دیکھا تو ادھر آ گیا۔”
وہ اب لائٹر سے ہونٹوں میں دبا ہوا ایک سگریٹ جلا رہا تھا۔ چند لمحے جلتے رہنے والے شعلے میں علیزہ نے اس کا چہرہ دیکھا پھر شعلہ بجھ گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!