عمر نے لائٹر واپس جیب میں نہیں رکھا۔ وہ اسے ایک بار پھر جلا رہا تھا۔ اس بار وہ لائٹر جلا کر علیزہ کے ہاتھ کے پاس لے گیا۔ لائٹر سے اٹھنے والے شعلے کی روشنی میں علیزہ کے ہاتھ میں پہنی ہوئی انگوٹھی جگمگانے لگی تھی۔ وہ کچھ دیر اس کے ہاتھ میں موجود انگوٹھی کو دیکھتا رہا پھر اس نے لائٹر بند کر دیا۔ وہ اب اپنے بائیں ہاتھ سے سگریٹ کو ہونٹوں سے نکال رہا تھا۔ سگریٹ کا ننھا سا شعلہ اب اس کے ہونٹوں سے انگلیوں میں منتقل ہو چکا تھا۔ علیزہ اندھیرے میں ہونے والی اس حرکت کو دیکھتی رہی۔
”تم نے مجھ سے کوئی گفٹ نہیں مانگا؟” کچھ دیر بعد اس نے مدھم آواز میں کہا۔ علیزہ کو اپنے حلق میں آنسوؤں کا پھندا لگتا ہوا محسوس ہوا۔
”گفٹ؟ جو کچھ تم مجھ سے لے چکے ہو۔ اس کے بعد پوری دنیا اٹھا کر میرے سامنے رکھ دینے پر بھی خوش نہیں ہو سکتی۔” اس کے اندر ایک اور سرگوشی ہوئی تھی۔
”تم مجھ سے بات نہیں کرو گی؟” وہ بہت نرم آواز میں پوچھ رہا تھا۔” تمہاری ناراضی ختم نہیں ہو گی؟”
وہ ساکت رہ گئی، وہ کس ناراضی کی بات کر رہا تھا کیا وہ جانتا تھا۔ وہ اس سے ناراض ہے اور اگر وہ یہ جانتا تھا تو پھر کیا اس کی ناراضی کی وجہ سے بھی واقف تھا پھر بھی وہ اب تک اتنی بے نیازی دکھا رہا تھا۔
”اندھیرے میں بیٹھ کر رونے کی عادت چھوڑ دو علیزہ۔” اس کی نرم آواز اسے ایک چابک کی طرح لگی تھی۔ ساری دنیا میں وہی ایک شخص تھا جو تاریکی میں بھی اسے پہچان سکتا تھا جو اس کے چہرے پر ایک نظر ڈالے بغیر بھی اس کی ساری کیفیات سے باخبر تھا۔ اس نے خود کو بے بسی کی انتہا پر پایا۔
”میرے ساتھ یہ کیوں کیا آپ نے؟” وہ یک دم پھٹ پڑی۔ ”آپ نے میری پوری زندگی تباہ کر دی۔ آپ نے مجھے میرے قدموں پر کھڑے رہنے کے قابل تک نہیں چھوڑا۔” وہ بچوں کی طرح بلک رہی تھی۔
”مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ مجھے اپنی زندگی سے اس طرح باہر نکال کر پھینک سکتے ہیں۔” وہ بالکل خاموش تھا۔
”جوڈتھ۔ آپ کس طرح اسے اپنی زندگی میں لا سکتے ہیں، کس طرح اسے میری جگہ دے سکتے ہیں۔”
”کیا ان سب باتوں کا اب کوئی فائدہ ہے؟” اس کی آواز اب بھی اتنی ہی مدھم تھی۔
”کیوں فائدہ نہیں۔ کیوں فائدہ نہیں ہے؟” اس نے بلند آواز میں کہا۔
”آپ کو پتا ہے آپ نے کس طرح میری ذات کی نفی کی ہے… کس طرح Crippled (بے بس) کر دیا ہے مجھے؟”
”علیزہ۔” عمر نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر وہ بولتی رہی۔
”دس سال میں آپ کو ایک بار بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ میں آپ کے لیے عام فیلنگز نہیں رکھتی۔ میں آپ کی کزنز میں سے ایک اور کزن نہیں ہوں۔ میں آپ کی فرینڈز میں سے ایک اور فرینڈ نہیں ہوں۔
you always meant so much to me. آپ نے کبھی ایسا سوچا ہی نہیں آپ کو کبھی اس کا احساس ہی نہیں ہوا۔ میں یقین نہیں کر سکتی، کبھی یقین نہیں کر سکتی۔”
وہ اب اس کے کندھے کو سختی سے پکڑے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”میں نے تم سے کبھی کوئی وعدہ نہیں کیا۔ کیا کبھی میں نے تم سے کچھ کہا؟” اس نے پرسکون انداز میں پوچھا۔ وہ چند لمحوں کے لیے کچھ بھی نہیں کہہ سکی۔
”تم اسے مانو یا نہ مانو مگر حقیقت یہی ہے کہ میں نے کبھی تمہارے بارے میں اس طرح سے سوچا ہی نہیں۔” وہ بہت نرمی سے اپنے کندھے کو اس کے ہاتھ کی گرفت سے چھڑا رہا تھا۔ وہ گیلے چہرے کے ساتھ اندھیرے میں اس کے چہرے کے نقوش کو کھوجتی رہی۔
”اگر مجھے تم میں کوئی دلچسپی ہوتی تو میں اتنے سالوں میں ضرور بتا دیتا۔ اگر میں نے ایسا نہیں کیا تو اس کا صاف مطلب ایک ہی ہے اور وہ وہی ہے جو تم سمجھنا نہیں چاہ رہیں۔”
عمر کے لہجے کی ٹھنڈک اور سرد مہری نے اسے عمر سے مزید برگشتہ نہیں کیا۔ اپنے کندھے سے اس کا ہاتھ ہٹانے سے بھی وہ دل برداشتہ نہیں ہوئی۔
”تم بہت اچھی ہو لیکن مجھے تم سے محبت نہیں ہے۔” وہ بہت صاف اور واضح لفظوں میں کہہ رہا تھا۔ وہ نہیں جانتی اسے کیا ہوا۔ وہ اندر نہیں بھاگی۔ وہ عمر پر نہیں چلائی۔ وہ ننھے بچوں کی طرح دونوں ہاتھوں سے اس کا بازو پکڑ کر اس کے کندھے سے سر ٹکائے بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگی۔