Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”مجھ سے یہ مت کہو۔ تمہیں پتا ہے اس سے کتنی تکلیف ہوتی ہے مجھے۔”
عمر اب بالکل ساکت تھا یوں جیسے وہ پتھر کا کوئی مجسمہ ہو۔
”میرے ساتھ وہ سب کچھ مت کرو جو ذوالقرنین نے کیا۔ تم دنیا کے آخری آدمی ہو گے جس سے میں یہ توقع کروں گی کہ وہ مجھ سے یہ کہے گا اسے مجھ سے محبت نہیں ہے۔” وہ اسی طرح روتی رہی۔
”میں کبھی جنید کے ساتھ وفادار نہیں ہو سکتی۔ میں کبھی کسی کے ساتھ وفادار نہیں ہو سکتی۔ تم کیوں نہیں سمجھتے، ہم دونوں بہت اچھی زندگی گزار سکتے ہیں، ہم دونوں اب بھی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ اگر تم چاہو تو…اگر تم چاہو تو۔”
”اور میں ایسا نہیں چاہتا۔” اس کی پرسکون آواز میں کوئی اضطراب تھا نہ ارتعاش…وہ اب بھی اپنی بات پر اسی طرح اڑا ہوا تھا۔ اس کے بازو پر علیزہ کی گرفت اور سخت ہو گئی۔
”تم کیوں نہیں چاہتے…؟ تم کیوں نہیں چاہتے؟” وہ اس کے بازو سے ماتھا ٹکائے بچوں کی طرح بے تحاشا روتی گئی۔ عمر نے بازو پر اس کے آنسوؤں کی نمی کو محسوس کیا۔
”مجھے آج یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔” عمر بڑبڑایا۔ ”میں نے یہاں آکر غلط کیا۔”



علیزہ نے اس کے کندھے پر ٹکا سر اٹھا کر اندھیرے میں دھندلی آنکھوں کے ساتھ اسے تلاش کرنے کی کوشش کی اور بہت سالوں کے بعد پہلی بار اسے احساس ہوا کہ اس نے اپنی زندگی کے دس سال ایک غلط شخص کے لیے ضائع کر دیئے۔ اس کے نزدیک علیزہ کی کیا اہمیت تھی؟ اس کے نزدیک اس کے آنسو کیا معنی رکھتے تھے…؟ اس کے نزدیک اس کی خوشی کی کیا حیثیت تھی…اس کے نزدیک علیزہ کیا تھی…؟
دس سالوں کے بعد پہلی بار اس نے آئینے میں اپنے چہرے کو آنکھیں بند کر کے دیکھنے کی کوشش کرنے کے بجائے آنکھیں کھول کر دیکھنے کی کوشش کی۔
اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں کو اس نے عمر کے بازو سے ہٹا لیا۔
”تم آج بھی وہیں ہو، جہاں میں نے تمہیں اتنے سال پہلے دیکھا تھا۔ تم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی…پہلے بھی تمہاری سوچ بچکانہ تھی۔ آج بھی ہے۔” وہ اندازہ نہیں کر سکی۔ وہ اسے جھڑک رہا تھا یا اسے آئینہ دکھا رہا تھا۔
”تمہیں اس بات پر یقین آئے یا نہ آئے بہرحال میں نے دس سال تمہارے لیے کچھ محسوس نہیں کیا۔”
علیزہ نے اپنے ہونٹ کھینچ لیے۔
”میں بہت کوشش کروں تو بھی میں اپنے اندر تمہارے لیے کوئی خاص قسم کے جذبات دریافت کرنے میں ناکام ہو جاتا ہوں۔ میں نے بارہا خود کو ٹٹولا ہے لیکن میرے دل سے کوئی آواز نہیں آئی۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مجھے تم سے محبت نہیں ہے؟” اس کی سفاک حقیقت پسندی عروج پر تھی، وہی سفاکی جس کے لیے وہ مشہور تھا۔
”دس سال میں کبھی ایسا ہوا کہ میں نے تم سے اظہار محبت کیا ہو…؟ نہیں میں نے ایسا کچھ نہیں کیا…اگر دنیا میں محبت نام کا کوئی جراثیم موجود بھی ہے تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس سے میرا دل کبھی متاثر نہیں ہوا۔”
علیزہ کے آنسو رک چکے تھے۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اندھیرے میں اپنے سے چند انچ دور اس شخص کے ہیولے کو دیکھ رہی تھی جسے اس نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ چاہا تھا۔



”مرد اور عورت کے درمیان ہر رشتہ محبت کا رشتہ نہیں ہوتا…چاہو تو بھی نہیں بن سکتا…جیسے تمہارا اور میرا رشتہ…اپنے اور میرے رشتے کو اگر تم نے اتنے سالوں میں نہیں پرکھا تو یہ تمہاری غلطی ہے، میری نہیں…میں کسی حماقت آمیز خوش فہمی کا حصہ نہیں بن سکتا۔”
وہ ہر چیز کے چیتھڑے اڑا رہا تھا…اس کے اعتماد کے…عزت نفس کے…زندگی کے…خوابوں کے…خواہشات کے…اور علیزہ سکندر کو دس سال یہ زعم رہا تھا کہ یہ سب چیزیں اس نے اسی شخص سے لی تھیں۔
”اگر تم نے میرے حوالے سے کوئی خوش فہمیاں پال لیں تو میں کیا کر سکتا ہوں …میرا اس سب میں کیا حصہ ہے، در حقیقت میں اس سارے معاملے میں کبھی بھی حصہ دار نہیں رہا۔” اس نے عمر کو کندھے اچکاتے دیکھا۔
”میں تو اتنے سالوں میں سینکڑوں لڑکیوں سے ملتا رہا ہوں …میں سب کے ساتھ فرینڈلی رہا ہوں …سب کے ساتھ میرا ایک جیسا رویہ رہا ہے …اور میرے لئے تم بھی ان سب سے مستثنیٰ نہیں تھیں۔” وہ دم بخود تھی۔
”دوست تم تھیں …ہو …رہو گی …مگر اس سے دو قدم آگے بڑھ کر کسی خاص رشتے کے حوالے سے تمہیں دیکھنا بہت مشکل ہے …بلکہ نا ممکن۔”
Rude,harsh,bitter اس سے پہلے اس نے عمر کو دوسرے لوگوں کے ساتھ ان خصوصیات کا استعمال کرتے دیکھا تھا۔ آج وہ اس پر استعمال کر رہا تھا۔
”شادی کوئی ون سائیڈڈ افئیر نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے بنانے کی کوشش کرو …یہ ایسا نہیں ہوتا کہ تم نے کہا اور میں نے مان لیا …نہ ہی یہ کوئی کیک ہوتا ہے جو میں بیکری سے بنوا کر لا دوں …ساری زندگی کے لئے کسی شخص کو چن کر، اس کے ساتھ رہنا بہت سوجھ بوجھ مانگتا ہے …صرف دماغ ہی نہیں دل بھی اس جگہ پر ہونا چاہیے جس شخص کے ساتھ جس جگہ پہ رشتہ آپ قائم کرنا چاہتے ہیں۔”
اس کی آواز میں ٹھنڈک تھی …وہ اس عمر سے پہلی بار ملی تھی۔
”گرینی نے مجھ سے تمہارے بارے میں بات کی …میں نے انکار کر دیا …مجھے سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ It was like a reflex action …کوئی ہچکچاہٹ …کوئی تامل …کوئی تردد …میں نے کچھ محسوس نہیں کیا …تو اس کا صاف صاف مطلب تو یہی ہے کہ جن خواتین کے بارے میں، میں نے کبھی کچھ خاص جذبات محسوس کرنے یا خاص خیالات رکھنے …یا آسان لفظوں میں جن سے شادی کے بارے میں سوچنے کی کوشش کی …ان میں تم کبھی نہیں آئیں …نہ شعوری طور پر، نہ لا شعوری طور پر۔”
علیزہ کو اب اپنے ہونٹ خشک ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!