”پھر اگر صرف تمہاری ضد پر یہ یک طرفہ شادی ہو جائے تو کیا ہو گا۔ a total disaster میں زندگی میں سارے حساب کتاب کر کے رسک لیتا ہوں، آنکھیں بند کر کے سوچے سمجھے بغیر کسی کھائی کو سوئمنگ پول سمجھ کر اس میں چھلانگ لگانے کا عادی نہیں ہوں …اور تم مجھ سے یہی سب کچھ چاہتی ہو۔”
وہ پانی پینا چاہتی تھی …اس کے حلق اور بدن پر کانٹوں کا جنگل اگ آیا تھا۔
”ممکن ہے، تم مجھ سے شادی کر کے خوش رہو …مگر سوال یہ ہے کہ کیا میں خوش رہ سکتا ہوں …کیا تم نے میری خوشی کا سوچا ہے؟ تم نے نہیں سوچا ہو گا …میں کسی شاپنگ آرکیڈ کے کسی شو کیس میں لگی ہوئی چیز نہیں ہوں جو تمہیں پسند آ جائے اور تم ہر قیمت پر اسے گھر لے جانے پر تل جاؤ۔” اس کی آواز کے چابک اپنا کام بخوبی کر رہے تھے۔
”جہاں تک تمہاری اس غلط فہمی کا تعلق ہے کہ میں نے تمہیں اپنی زندگی سے نکال دیا …تو میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ نہ میں تمہیں زندگی کے اندر لایا تھا، نہ میں نے باہر نکالا ہے۔ تم جس رول میں میری زندگی موجود ہو …اس رول میں ہمیشہ رہو گی …ہاں، مگر تم جو رول لینا چاہتی ہو، وہ میرے لئے قابل قبول نہیں ہے …اگر اس بات کو تم زندگی سے نکال دینا سمجھتی ہو تو میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔”
اس کا دل چاہا وہ وہاں سے بھاگ جائے۔
”میں نے تمہاری زندگی تباہ کر دی …میں نے تمہیں معذور کر دیا …نہیں علیزہ ! میں نے ایسا کچھ نہیں کیا …اگر یہ کسی نے کیا ہے تو تم نے خود کیا ہے۔” اس نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔
”جہاں تک جنید کا تعلق ہے …اس کے ساتھ تمہاری وفاداری کا سوال ہے …یا تمہاری خوشی کا مسئلہ ہے تو میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں …سوائے اس کے کہ یہ بھی صرف اور صرف تمہارا مسئلہ ہے اور تمہیں ان دونوں چیزوں کے بارے میں منگنی سے پہلے سوچ لینا چاہئے تھا۔ تمہیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ تم اس کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتیں تو تمہیں اس سے منگنی کرنا ہی نہیں چاہئے تھی۔ کسی نے یقیناً تمہیں پریشرائز نہیں کیا ہو گا اس پرپوزل کے لئے کہ تم یہیں شادی کرو …تم نہ کرتیں۔”
وہ اسے مسئلے کا حل نہیں بتا رہا تھا، وہ اسے اس کی حماقت جتا رہا تھا۔
”بلکہ اب منگنی توڑ دو …اگر تمہیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ تمہیں وہ پسند نہیں ہے یا وفاداری اور خوشی کا سوال ہے تو ٹھیک ہے یہ رشتہ ختم کر دو …ابھی صرف منگنی ہوئی ہے اور منگنی کوئی ایسا بڑا رشتہ نہیں ہوتا جس کے باے میں دوبارہ نہ سوچا جا سکے۔”
علیزہ کو اپنے ہاتھ پیر سن ہوتے ہوئے لگ رہے تھے۔
”لیکن اگر اس خوشی اور وفاداری کے ایشو کو تم میری ذات سے منسلک کر رہی ہو تو فار گیٹ اباؤٹ اٹ …مجھے ہر چیز …ہر تعلق …ہر رشتے …ہر بیک گراؤنڈ …ہر فور گراؤنڈ سے نکال کر دیکھو …مجھ کو بھول کر جنید کو جج کرو …پھر بھی تمہیں یہی لگے کہ وہ تمہارے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ تو یہ رشتہ ختم کر دو …مگر یہ ذہن میں ضرور رکھو کہ جنید نہیں ہو گا تو کوئی دوسرا ہو گا …کوئی دوسرا نہیں ہو گا تو کوئی تیسرا ہو گا… کوئی بھی سہی مگر …وہ …میں …نہیں …ہوں گا …نہ آج …نہ آئندہ کبھی۔”
اس نے آخری جملے کا ایک ایک لفظ ٹھہر ٹھہر کر کہا تھا …ہر لفظ پر زور دیتے ہوئے …صاف …واضح اور دو ٹوک انداز میں …کسی مغالطے یا خوش فہمی کی گنجائش رکھے بغیر۔
علیزہ نے ہر لفظ سنا تھا۔ کسی دشواری …یا رکاوٹ کے بغیر …کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کے بغیر …عمر کے وہاں آنے سے پہلے وہ خواہش کر رہی تھی، سب کچھ ختم ہو جائے …اس کی خواہش پوری ہو گئی تھی۔ سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔
بہت سے لیبلز کے ساتھ وہ آج بھی وہیں تھی، جہاں دس سال پہلے تھی …اندھیرے نے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کی شناخت ختم نہیں کی تھی …یہ کام روشنی نے کیا تھا …روشنی معجزے کرتی ہے …وجود کو اس طرح عیاں کرتی ہے کہ کسی فریب اور دھوکے میں رہنا ممکن ہی نہیں رہتا …مقدر کو منور کر دیتی ہے …ہار ماننے پر قبر میں گاڑ دیتی ہے …نہ ماننے پر صلیب چڑھا دیتی ہے …بس چیزوں کو ان کے مقام پر نہیں رہنے دیتی …پارس چھوئے بغیر بھی انسان سونا بن جاتا ہے اور آگ کے پاس آئے بغیر بھی موم کی طرح پگھلنے لگتا ہے …روشنی واقعی معجزے کرتی ہے۔
وہاں اب خاموشی تھی …مکمل خاموشی …علیزہ کبھی کسی ”اجنبی” کے اتنا قریب نہیں بیٹھی تھی …آج بیٹھی تھی …وہ انتظار کر رہی تھی عمر کچھ اور کہے …کچھ اور ملامتیں …اور عمر شاید ان تمام باتوں کے جواب میں اس کی طرف سے کچھ کہے جانے کا منتظر تھا …شاید چند وضاحتیں …کچھ معذرتیں …پچھتاوے …اسے توقع تھی۔ علیزہ اسی طرح کا اظہار کرے گی۔ اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
”آپ ٹھیک کہتے ہیں۔” وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
سب کچھ اسی گھر میں شروع ہوا تھا …سب کچھ اسی گھر میں ختم ہو گیا تھا۔ علیزہ نے مڑ کے اوپر والی سیڑھی پر قدم رکھ دیا …عمر نے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی …نہ ہی اس نے کچھ کہا۔
وہ غیر ہموار قدموں سے چلی آئی …اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی …وہ جانتی تھی۔ پیچھے رہ جانے والے شخص نے بھی اسے مڑ کر نہیں دیکھا ہو گا …وہ اس کا ماضی تھا …ایسا ماضی جس پر اس کا پچھتاوا اب شروع ہوا تھا۔