Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”تم سے ایک بات پوچھوں؟” علیزہ نے یک دم آنکھیں کھول کر شہلا سے کہا۔
”ہاں۔”
”تم سے نانو نے کہا ہے کہ مجھ سے یہ سب کہو۔”
شہلا کچھ بول نہیں سکی۔ اسے علیزہ سے ایسے سوال کی توقع نہیں تھی۔ اسے اس طرح چپ ہوتے ہوئے دیکھ کر علیزہ عجیب سے انداز میں مسکرائی۔
”مجھے پہلے ہی اندازہ ہو رہا تھا… آج فیروز سنز بھی تم مجھے جان بوجھ کر لے گئی تھیں… یہ بھی یقیناً تم سے نانو نے کہا ہو گا۔”
”تمہیں کیسے پتا چلا…؟” شہلا نے کچھ خفت سے کہا۔
”شہلا! میں بے وقوف نہیں ہوں… میں اب بچی بھی نہیں رہی… اور تم لوگوں کو بھی یہ بات جان لینی چاہئے۔۔۔” اس کی آواز میں خفگی تھی۔ ”میں بھی حیران تھی کہ جنید کو تمہارا نام کیسے پتا ہے… وہ بھی جھوٹ بول رہا تھا مجھ سے کہ اس نے مجھے تمہارا نام لیتے سنا ہے… جبکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے فیروز سنز پر ایک بار بھی تمہارا نام نہیں لیا۔”
”علیزہ! میں۔۔۔” علیزہ نے شہلا کی بات کاٹ دی۔



”کبھی سجیلہ آنٹی مجھے ٹریپ کرکے اس سے ملوا رہی ہیں… کبھی نانو… اور اب تم… میں اس قدر احمق اور امیچور نہیں ہوں جتنا تم لوگ مجھے سمجھ رہے ہو۔” اس کا غصہ اب بڑھتا جا رہا تھا۔
”نانو اگر عمر سے بات کرنا نہیں چاہتی تو نہ کریں مگر تمہارے ذریعے اس کے خلاف میری برین واشنگ کرنے کی کوشش بھی نہ کریں۔”
”علیزہ ایسی بات نہیں ہے میں تمہاری برین واشنگ کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہوں نہ ہی انہوں نے مجھ سے ایسا کچھ کرنے کے لئے کہا ہے۔” شہلا اب کچھ پریشان ہو گئی تھی۔
”اگر ایسی بات نہیں ہے، تو وہ یہ سب کچھ خود مجھ سے کہہ سکتی تھیں۔ تمہارے ذریعے کیوں کہلوایا ہے انہوں نے یہ سب ؟ ”
”ان کا خیال تھا ، میں تمہیں یہ سب کچھ زیادہ بہتر طریقے سے بتا سکتی ہوں۔”
”ہاں عمر کے خلاف باتیں کرکے… جھوٹ بول کر تم مجھے ہر چیز زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا سکتی ہوں۔”
وہ مکمل طور پر شہلا سے برگشتہ ہو چکی تھی۔ ”انہوں نے مجھے خود صاف صاف یہ کیوں نہیں بتا دیا کہ وہ عمر سے بات نہیں کریں گی… ایسی من گھڑت کہانیاں سنانے کی کیا ضرورت ہے… عمر اور جوڈتھ کی شادی… نان سینس”
”یہ کوئی من گھڑت کہانی نہیں ہے۔ عمر واقعی جوڈتھ کے ساتھ اس ہوٹل۔۔۔”
علیزہ نے خفگی سے شہلا کی بات کاٹ دی۔” ”Enough is enough… کم از کم میرے سامنے ان دونوں کے حوالے سے کچھ بھی مت کہنا۔”
”تمہیں اگر یقین نہیں آتا تو تم خود وہاں جا کر اس بات کو کنفرم کر لو۔”
”میں اتنی تھرڈ کلاس حرکت کبھی نہیں کر سکتی کہ اس کی جاسوسی کرتی پھروں، تمہیں مجھ سے ایسی باتوں کی توقع تو نہیں کرنی چاہئے۔ ” اس نے سرخ چہرے کے ساتھ شہلا سے کہا۔
”تم میری بات ماننے کو تیار نہیں ہو… میری ہر بات تمہیں جھوٹ لگ رہی ہے۔ پھر میں اس کے علاوہ اور کیا کر سکتی ہوں کہ تمہیں خود تمہاری آنکھوں سے سب کچھ دکھا دوں۔”
علیزہ ناراضی سے کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔
”اب کم از کم مجھ سے ناراضی تو ختم کر دو۔” شہلا نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔
”تمہیں نانو کا ماؤتھ پیس بننے کے لئے کس نے کہا تھا۔” اس نے ایک بار پھر گردن موڑ کر اکھڑے ہوئے انداز میں اس سے کہا۔
”مجھے تمہاری فکر تھی… اس لئے ۔۔۔”
”کم آن شہلا ! یہ پروا اور فکر جیسے لفظ استعمال مت کرو۔ دوستوں کو کبھی فکر اور پروا کے نام پر حقائق چھپانے اور جھوٹ بولنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اس سے دوستی جیسا رشتہ کتنی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ تمہیں نہیں ہے۔۔۔” وہ اس بار سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔ ”تم اب مجھ سے عمر اور جوڈتھ کے علاوہ اور کسی کے بارے میں کچھ بھی کہہ لینا… مگر ان کے بارے میں کچھ نہیں۔ میں اس سارے معاملے سے خود نپٹنا چاہتی ہوں اور اگر میں نانو کو عمر سے بات کرنے کے لئے کہہ سکتی ہوں تو پھر نانو کے سامنے بیٹھ کر یہ سب باتیں بھی ڈسکس کرسکتی ہوں۔” وہ رکی پھر قدرے توقف سے بولی۔



”نانو کو مجھے اب واقعی میچور سمجھ لینا چاہئے کہ میں ہر ایموشنل کرائسس کا سامنا کر سکتی ہوں… کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے والے فیز سے گزر چکی ہوں میں… بلکہ اسے بہت پیچھے چھوڑ آئی ہوں۔”
”مجھے نانو اور تمہارے خلوص اور میرے لئے اپنی محبت پر شبہ نہیں ہے… مگر تم لوگوں کو عمر کے لئے میری فیلنگز کو بھی تو سمجھنا چاہئے۔ میں اسے صرف کسی سنی سنائی بات کی بنا پر نہیں چھوڑ سکتی۔ یہ میرے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔” اس کے لہجے میں اس بار نمایاں بے بسی تھی۔
”جہاں تک جوڈتھ کا تعلق ہے تو وہ تو ہمیشہ سے اس کی زندگی میں رہی ہے… تب بھی جب وہ کئی سال پہلے یہاں ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ رہا تھا… اور اگر اسے مجھ میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی تو وہ … میرے لئے وہ سب کچھ کیوں کرتا رہتا جو وہ آج تک کرتا آیا ہے… ہر ایک کے لئے تو نہیں کرتا وہ …کچھ تو ہو گا اس کے دل میں میرے لئے… اور مجھ سے یہ نہ کہو کہ یہ محبت نہیں ہے… ہمدردی ہے… یا مروت … یہ کم از کم ان دونوں چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔” اس نے اپنے ہونٹوں کی لرزش چھپانے کے لئے ہونٹ بھینچ لئے۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور وہ انہیں چھلکنے سے روکنے کی کوشش میں مصروف تھی۔
شہلا نے ہمدردی سے اسے دیکھا پھر اس نے نرمی سے اس کے کندھے پر اپنا بازو پھیلا دیا۔ ”میں تمہاری فیلنگز سمجھ سکتی ہوں… تم اگر واقعی یہ سمجھتی ہو کہ عمر کے علاوہ… تو ٹھیک ہے تم نانو کو کہو۔ ایک بار پھر… کہ وہ اس سے بات کریں… ہو سکتا ہے وہ … واقعی تمہارے لئے کچھ خاص فیلیگز رکھتا ہو… اور اگر ایسا ہوا تو مجھ سے زیادہ تمہارے لئے اور کوئی خوش نہیں ہو گا… بلکہ اگر تم چاہو تو میں خود عمر سے۔۔۔” وہ اب تلافی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!