”میں نے آج شام عمر کو بلوایا ہے۔” نانو نے صبح ناشتے کی میز پر علیزہ کو بتایا۔ وہ سلائس پر جام لگاتے ہوئے رک گئی۔ اسے اپنے خون کی گردش اور دھڑکن تیز ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔
وہ شام کے بجائے رات کو آیا تھا۔ علیزہ اس وقت اپنے کمرے میں تھی۔ نانو نے اس کیلئے رات کا کھانا تیار کروایا ہوا تھا اور اس کے آنے کے تھوڑی دیر بعد ہی نانو نے علیزہ کو کھانے کے لئے پیغام بھجوایا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔” اس نے ملازم سے کہلوایا تھا۔
وہ اس وقت عمر کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی… نہ ہی وہ کر سکتی تھی۔ اس کے اسلام آباد کے قیام کے بعد وہ آج پہلی بار یہاں آیا تھا۔اس کے آنے کے کچھ دیر بعد اپنے کمرے کی لائٹ بند کرکے وہ اپنے بیڈ پر آکر لیٹ گئی۔ اس کی آنکھوں سے نیند مکمل طور پر غائب تھی۔ نائٹ بلب کی روشنی میں وہ چھت کو گھورتی رہی۔
عمر بارہ بجے کے قریب واپس گیا تھا۔ اس نے اس کی گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی تھی۔ بے اختیار اس کا دل چاہا، وہ اٹھ کر باہر جائے اور نانو سے پوچھے کہ اس نے کیا کہا ہے۔ کیا ہمیشہ کی طرح وہی رٹا رٹایا جملہ۔
”میں شادی کرنا ہی نہیں چاہتا نہ ہی کبھی کروں گا… میں آزاد ہوں اور مجھے اپنی یہ آزادی پسند ہے۔” یا پھر یہ کہ ”میں ابھی شادی کرنا نہیں چاہتا… کچھ سال کے بعد اس کے بارے میں غور کروں گا اور جب شادی کے بارے میں سوچوں گا تو علیزہ کے بارے میں بھی غور کروں گا۔”
اسے کئی سال پہلے نانو کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو یاد آئی جو اس نے اتفاقاً سن لی تھی اور تب پہلی بار اس نے عمر کے بارے میں بڑی حیرت سے سوچا تھا۔ ”عمر سے شادی…؟ کیا وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے…؟ کیا میں اس سے شادی کر لوں گی۔” ایک ٹین ایجر کے طور پر اسے اس بات پر ہنسی آئی تھی مگر وہ بات اس کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوئی… وہ اس کے لاشعور کا ایک حصہ بن گئی تھی اور وقتاً فوقتاً اس کے ذہن میں ابھرتی رہتی تھی۔
وہ اٹھ کر باہر نانو کے پاس نہیں گئی۔ ”نانو یقیناً اب سونے کے لئے جا چکی ہوں گی۔ اگر وہ سونے کے لئے نہ بھی گئیں تب بھی ہو سکتا ہے، وہ اس موضوع پر مجھ سے اس وقت بات نہ کریں۔ بہتر ہے میں ان سے صبح ہی بات کروں۔”
اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے سونے کی کوشش شروع کر دی۔ یہ کام خاصا مشکل تھا مگر وہ رات کے کسی پہر سونے میں کامیاب ہو ہی گئی تھی۔
٭٭٭