وہ صبح جس وقت بیدار ہوئی نو بج رہے تھے۔ آنکھیں کھولتے ہی جو پہلا خیال اس کے ذہن میں آیا، وہ رات کو عمر کی نانو کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بارے میں تھا۔ ہر روز صبح بیدار ہونے کے بعد کی معمول کی بے فکری یک دم کہیں غائب ہو گئی تھی۔ رات والی بے چینی اور اضطراب نے یک دم اسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
ناشتہ کرنے کے لئے وہ جس وقت ڈائننگ ٹیبل پر آئی، اس وقت نانو پہلے ہی وہاں موجود تھیں۔ علیزہ نے ان کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی، اسے ناکامی ہوئی۔ نانو سنجیدہ نظر آرہی تھیں۔ وہ عام طور پر سنجیدہ ہی رہتی تھیں۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح علیزہ کو ناشتہ پیش کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اس وقت ان کے منہ سے یہ نہیں سننا چاہتی تھی۔
”آج میں نے تمہارے لئے فرنچ ٹوسٹ بنوائے ہیں۔ تم کھاؤ ، تمہیں پسند آئیں گے۔”
”یا پھرآملیٹ لو گی یا بوائلڈ ایگ یا فرائیڈ ؟”
وہ کم از کم آج صبح ان سے ایسی کوئی بات سننا نہیں چاہتی تھی اور وہ اس سے وہی باتیں کر رہی تھیں۔
وہ اپنے اعصاب پر قابو رکھے ان کی باتیں سنتے ہوئے ناشتہ کرتی رہی۔ وہ منتظر تھی، وہ ابھی خود بات شروع کریں گی۔ نانو نے ایسا نہیں کیا جب اس کا صبر جواب دے گیا تو اس نے سلائس کو سامنے پڑی پلیٹ میں رکھتے ہوئے نانو سے کہا۔
”آپ نے عمر سے بات کی۔”
نانو نے چائے پیتے ہوئے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر کپ پرچ میں رکھ دیا۔ وہ سانس روکے، پلکیں جھپکائے بغیر ان کا چہرہ دیکھتے ہوئے ان کے منہ سے نکلنے والے لفظوں کی منتظر رہی۔
”وہ تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔”
اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ عمر اتنا دو ٹوک انکار کرے گا نہ ہی یہ توقع تھی کہ نانو اس دوٹوک انکار کو اسی طرح کسی لگی لپٹی کے بغیر اس کے سامنے پیش کردیں گی۔
”کیوں؟” زندگی میں کبھی ایک لفظ بولنے کے لئے اسے اتنی جدوجہد نہیں کرنی پڑی تھی جتنی اس وقت کرنی پڑی۔
نانو نے ایک گہرا سانس لیا۔ اب اس کا میں کیا جواب دوں؟”
”کیا عمر سے آپ نے یہ نہیں پوچھا؟”
”پوچھا تھا۔”
”پھر؟”
”اس کے پاس بہت سی وجوہات ہیں۔”
”مثلاً؟”
”وہ خاندان میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔”
”یہ تو کوئی وجہ نہیں۔” اس نے بے یقینی سے نانو کو دیکھا۔ ”کیا صرف اس بنا پر وہ مجھے رد کر رہا ہے کہ میں اس کی کزن ہوں۔ میں صرف اس کی کزن ہی تو نہیں ہوں۔”
”میں نے اس سے کہا تھا یہ مگر اس نے کہا کہ اگر اس بات کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تب بھی تم سے شادی نہ کرنے کے لئے اس کے پاس بہت سی وجوہات ہیں۔” نانو نے سنجیدگی سے کہا۔
”کیا کہا ہو گا اس نے یہی کہ وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔” علیزہ نے رنجیدگی سے نانو کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”یا یہ کہا ہو گا کہ و ہ شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔”
وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔
”نانو! میں اس کا انتظار کر سکتی ہوں، دس سال بیس ، تیس سال، ساری زندگی۔”
نانو خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں۔
”اور میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ وہ کبھی شادی نہیں کرے گا کبھی نہ کبھی تو اسے شادی کرنا ہی پڑے گی۔ وہ ساری زندگی اکیلا تو نہیں رہ سکتا پھر اس طرح کی بات کیوں کرتا ہے وہ؟” اس کے لہجے میں اب بے چارگی تھی ۔
”آپ بتائیں یہی سب کہا ہے نا اس نے؟”
”نہیں۔” اس نے حیرانی سے نانو کے چہرے کو دیکھتے ہوئے ان کے منہ سے نکلنے والا لفظ دہرایا۔
”اس نے یہ سب نہیں کہا؟”
”تو پھر اس نے یہ کہا ہو گا کہ میں اس کو ناپسند کرتی ہوں اور اس کی ہر بات پر اعتراض کرتی ہوں اس لئے اسے لگا ہو گا کہ ایسا کوئی رشتہ دیرپا ثابت نہیں ہوسکتا اس نے یہی سب کہا ہے نا آپ سے؟”
نانو نے ایک لمحہ کے لئے اس کا چہرہ دیکھا۔ علیزہ کو محسوس ہوا، وہ بات کرتے ہوئے کچھ متامل تھیں۔
”اس نے مجھ سے ایسا کچھ نہیں کہا کہ وہ ابھی شادی کرنا نہیں چاہتا۔” نانو نے چند لمحوں کے بعد بات شروع کی ”یا پھر کبھی شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔” وہ رکیں ”وہ خود بھی شادی کے بارے میں سوچ رہا ہے اور وہ کہہ رہا تھااکہ ایک دو سال تک وہ شادی کر لے گا۔”
علیزہ نے ٹیبل پر رکھے اپنے ہاتھ کو ہٹا لیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی، نانو اس کے ہاتھ کی لرزش دیکھیں مگر اس وقت اس کے چہرے پر کتنے رنگ بدل رہے ہوں گے، یہ وہ جانتی تھی۔
”اس نے مجھ سے کہا کہ اسے تم میں کبھی بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی، تم اس کے لئے ایک کزن یا دوست سے زیادہ کچھ بھی نہیں رہی۔” وہ دم سادھے ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ” اس نے یہ بھی کہا کہ تم اس سے آٹھ سال چھوٹی ہو اور تم اس کے ٹمپرامنٹ کو سمجھ نہیں سکتیں۔”
وہ پلکیں جھپکائے بغیر ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔