امر بیل ۔قسط۔ ۱۹۔ عمیرہ احمد
”علیزہ ! جنید کا فون ہے، وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔” وہ ناشتہ کرنے کے لیے لاؤنج میں داخل ہو رہی تھی جب نانو نے اس کو مخاطب کیا۔ وہ فون کا ریسیور ہاتھ میں تھامے ہوئے تھیں۔
علیزہ ایک لحظہ کے لیے ٹھٹھکی اور پھر ان کی طرف بڑھ آئی۔ صوفہ پر بیٹھ کر اس نے نانو کے ہاتھ سے ریسیور لے لیا۔ وہ حیران تھی، جنید عام طور پر اس وقت فون نہیں کیا کرتا تھا۔
”ہیلو!” اس نے ریسیور تھامتے ہوئے ماؤتھ پیس میں کہا۔
”کیسی ہو علیزہ؟” دوسری طرح سے وہی نرم پچکارتی ہوئی آواز سنائی دی جس کی اب وہ کچھ عادی ہو گئی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ نے اس وقت فون کیسے کیا؟”
”تمہیں حیرانی ہو رہی ہے۔” جنید نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
”کسی حد تک۔”
”تمہیں لنچ پر لے جانا چاہ رہا تھا۔” اس نے کسی تمہید کے بغیر کہا۔
”آپ رات کو مجھے بتا دیتے جب آپ نے مجھے کال کی تھی۔”
”اس وقت مجھے یاد نہیں رہا فون بند کر دیا، تب یاد آیا پھر میں نے سوچا کہ دوبارہ کال کرنا ٹھیک نہیں۔ میں صبح کر لوں گا اسی لیے تمہیں اب کال کر رہا ہوں۔” جنید نے بتایا۔
وہ کچھ سوچ میں پڑ گئی۔ ”تمہارا لنچ آور کب شروع ہو رہا ہے؟” اسے خاموش پا کر جنید نے پوچھا۔
”ایک بجے۔” علیزہ نے کہا۔
”ٹھیک ہے پھر میں آفس سے ساڑھے بارہ بجے نکلتا ہوں۔ آدھے گھنٹہ میں تمہارے آفس پہنچ جاؤں گا۔” جنید نے پرگرام طے کرتے ہوئے کہا۔ ”تم لنچ آور شروع ہوتے ہی باہر آ جانا۔ ہم کسی قریبی ریسٹورنٹ میں لنچ کر لیں گے پھر میں تمہیں واپس ڈراپ کر دوں گا۔”
”مگر آج تو میں لنچ کرنا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔” علیزہ نے کہا۔
”کیوں ؟”
”آج خاصا مصروف دن گزرے گا آفس میں…شاید ایک دو فنکشنز کور کرنے کے لیے بھی جانا پڑے تو لنچ آور تو نکل ہی جائے گا۔” اس نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی پھر جنید نے کہا۔
”تمہیں یقین ہے کہ تم کسی طرح بھی کچھ وقت نہیں نکال سکتیں؟”
”اگر مجھے یقین نہیں ہوتا تو میں آپ سے کبھی نہیں کہتی۔” علیزہ نے کہا ”ہم کسی اور دن لنچ کر لیتے ہیں۔” اس نے فوری طور پر ایک متبادل حل پیش کیا۔
”ٹھیک ہے۔ کسی اور دن لنچ کر لیتے ہیں۔ آپ بتا دیجئے کہ آپ کس دن دستیاب ہوں گی۔”
علیزہ اس کی بات پر مسکرائی۔ وہ اسے آپ اسی وقت کہتا تھا جب وہ خاصے خوشگوار موڈ میں ہوتا تھا۔
”کل چلتے ہیں۔” علیزہ نے اپنی گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
”کل…؟ ایک منٹ میں ذرا اپنا شیڈول دیکھ لوں…مجھے لگتا ہے کل، میں آفس سے نکل نہیں سکوں گا۔”
علیزہ نے اسے بڑبڑاتے سنا پھر کچھ دیر خاموشی رہی…چند منٹوں کے بعد جنید کی آواز دوبارہ آئی۔
”کل ممکن نہیں ہوگا علیزہ…! پرسوں چلتے ہیں…پرسوں میرے پاس خاصا وقت ہوگا۔”
”ٹھیک ہے پھر پرسوں ہی چلتے ہیں…آپ سے میں نے ایک کام کہا تھا۔ آپ کو یاد ہے۔” علیزہ کو بات کرتے کرتے اچانک یاد آیا۔
”نہ صرف یاد ہے بلکہ میں پہلے ہی آپ کا کام کر چکا ہوں…دو دن میں، میں نے وہ نقشہ مکمل کر لیا تھا۔ اب میں نے اپنے ایک اسسٹنٹ کو اسے دیا ہے تاکہ ایک دفعہ دوبارہ وہ اسے دیکھ لے۔ مجھے امید ہے، آج یا کل تک وہ یہ کام کر دے گا۔ پھر میں تمہیں سارے پیپرز بھجوا دوں گا۔”
”مجھے شکریہ ادا کرنا چاہیے؟” علیزہ نے خوشگوار انداز میں کہا۔
”یقیناً…اس میں تو پوچھنے والی کوئی بات ہی نہیں ہے۔” دوسری طرف سے جنید نے بڑی سنجیدگی سے کہا ”بلکہ بہتر ہے تم مجھے شکریہ کا ایک کارڈ بھجوا دو۔ فارمیلٹی اچھی ہوتی ہے۔ اس سے میرے جیسے بندے کو اپنی اوقات کا پتا چلتا رہتا ہے۔” وہ اسی سنجیدگی سے کہتا گیا۔
علیزہ بے اختیار ہنسی ”ایک کارڈ ٹھیک رہے گا؟” اس نے بظاہر سنجیدگی کے ساتھ جنید سے پوچھا۔
”ہاں ٹھیک رہے گا…گزارہ ہو جائے گا۔” جنید کی سنجیدگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔
”اچھا میں بھجوا دوں گی…اور بہت زیادہ شکریہ۔”
”کیا مجھے My pleasureکہنا چاہیے؟” وہ اب اس سے پوچھ رہا تھا۔
”ویل… کہنے میں کوئی حرج نہیں۔” اس نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے اسی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔
”My pleasure”…جنید نے اس کی بات سننے کے بعد بڑی سنجیدگی سے کہا۔ وہ بے اختیار مسکرائی۔
”آپ آج بہت اچھے موڈ میں ہیں۔”
”میں ہمیشہ اچھے موڈ میں ہوتا ہوں۔” جنید نے برجستگی سے کہا۔
”لیکن آج کچھ غیر معمولی طور پر اچھے موڈ میں ہیں۔”
”اس کی واحد وجہ صبح صبح آپ سے گفتگو بھی تو ہو سکتی ہے۔”
فوری طور پر علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا جواب دے۔ وہ مسکراتے ہوئے خاموش رہی۔
”بہر حال اتنا وقت دینے کے لیے شکریہ۔ میں کارڈ کا انتظار کروں گا۔” جنید نے خدا حافظ کہتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے فون رکھ دیا۔
”نانو پلیز، ناشتہ جلدی لگوا دیں۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔”
علیزہ نے ریسیور رکھتے ہی بلند آواز میں نانو سے کہا جو اس وقت کچن میں جا چکی تھیں۔
وہ علیزہ کی آواز سن کر کچن سے باہر نکل آئیں۔
”مرید ناشتہ تیار کر چکا ہے، بس چند منٹوں میں ٹیبل پر لگا دے گا۔ ”تم آج واپس کب آؤ گی؟”
”آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟” علیزہ کو حیرت ہوئی ، وہ عام طور پر یہ سوال نہیں کرتی تھیں۔
”مسز رحمانی نے آج ڈنر دیا ہے۔ پچھلی دفعہ میں تمہاری وجہ سے نہیں جا سکی اور وہ بہت ناراض ہوئیں اور اس بار تو انہوں نے خاص طور پر تاکید کی ہے۔” نانو نے اپنی کلب کی ایک ساتھی کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”نانو! میں تو آج بھی خاصی دیر سے ہی آؤں گی۔ مجھے آج ایک دو فنکشنز کی کوریج کے لیے جانا ہے۔ آپ پلیز اکیلی چلی جائیں۔” علیزہ نے فوراً معذرت کرتے ہوئے کہا۔
”مسز رحمانی نے صرف مجھے انوائیٹ نہیں کیا، تمہیں بھی کیا ہے۔” نانو نے اسے جتایا۔
”میں جانتی ہوں لیکن میں کیا کر سکتی ہوں۔ آپ کو پتا ہے میں آج کل بہت مصروف ہوں۔” علیزہ نے وضاحت کی۔
”یہ ساری مصروفیت تم نے خود پالی ہیں۔ کس نے کہا تھا دوبارہ اخبار جوائن کرنے کو…بہتر نہیں تھا گھر میں رہتیں۔ کلب میں آتیں جاتیں۔” نانو نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
علیزہ خانساماں کو ٹیبل پر ناشتہ لگاتے دیکھ چکی تھی۔ وہ صوفہ سے اٹھ کر ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئی۔
٭٭٭