Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

عمر جہانگیر اور زین العابدین کے جھگڑے کی ابتدا کب اور کس طرح ہوئی تھی؟ اس کا اندازہ کوئی بھی صحیح طرح سے نہیں لگا سکتا تھا۔
عمر کی پوسٹنگ اس وقت پاکستان کے پہلے پانچ بڑے شہروں میں سے ایک میں تھی۔ عمر اور تجربہ کے لحاظ سے وہ پولیس سروس کے سب سے جونیئر آفیسرز میں شامل تھا اور ایک جونیئر آفیسر کے پاس اس شہر کا ہونا حیران کن بات تھی۔ پاکستان میں شاید یہ اتنی حیران کن بات سمجھی نہیں جانی چاہیے تھی جہاں پوسٹنگز میں خاندانی اثرورسوخ ایک بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے اور عمر جہانگیر کے خاندان میں بیورو کریسی سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص ایسا نہیں تھا جو کسی غیر اہم پوسٹ پر ہوتا اور یہ صرف عمر پر ہی موقوف نہیں تھا، سول سروس کے زیادہ تر آفیسرز بھی اسی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے یقیناً یہ اس قدر غیر معمولی بات نہیں تھی جو زین العابدین جیسے جرنلسٹ کو عمر کی طرف متوجہ کرتی۔ اس سے پہلے زین العابدین کے ریکارڈ پر کسی نو آموز بیورو کریٹ کی چھوٹی موٹی ہاتھ کی صفائیاں شامل نہیں تھیں۔ اس نے جب بھی کسی بیورو کریٹ پر لکھا تھا وہ بیس اور اکیس گریڈکا بڑا آفیسر ہوتا تھا اور زین العابدین نے کسی بڑے سکینڈل کی وجہ سے ہی اس پر لکھا تھا پھر عمر جہانگیر کس طرح اس کی توجہ کا مرکز بنا تھا علیزہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
تیسرے دن اخبار میں صالحہ کا آرٹیکل چھپ چکا تھا۔



علیزہ نے جب سے اس نیوز پیپر میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ عمر کی اپنے شہر میں کارکردگی کے حوالے سے کئی بار اخبار میں اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ شائع ہوتا رہتا تھا۔ بعض دفعہ اس پر تنقید ہوتی، بعض دفعہ اسے سراہا جاتا اور بعض دفعہ اس کی سرگرمیوں کے حوالے سے معلومات ہوتیں۔
پھر ایک دم اس کے حوالے سے آنے والی خبروں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کے ضلع میں امن و امان کی صورت حال خراب ہوتی جا رہی تھی۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کے حوالے سے حساس ترین شہروں میں سے ایک میں اس کی تعیناتی کے عرصہ کے دوران وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی فرقہ وارانہ قتل کی گونج نیشنل پریس میں سنائی دیتی رہی اور ردعمل کے طور پر پولیس کے کیے جانے والے اقدامات جن میں ضرورت سے زیادہ گرفتاریاں شامل تھیں وہ بھی اخبارات میں آتی تھیں۔ پھر اکثر اوقات وہ پریس کانفرنس میں پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے صفائیاں دیتا بھی نظر آتا۔
کچھ عرصے کے بعد اس نے دھڑادھڑ اپنے علاقے میں معطلیاں شروع کر دیں، اس کا نتیجہ امن و امان کی صورت حال میں بہتری کی صورت میں آیا مگر دوسری طرف ضلع میں، اپنے محکمہ میں اس کے لیے ناپسندیدگی میں اضافہ ہوتا گیا۔
پھر اچانک اپنے شہر میں نئی سبزی منڈی کے حوالے سے اس کا اور اس کے شہر کے ڈپٹی کمشنر کا چرچا نیشنل پریس میں چند کالم نویسوں کے تعریفی کالموں میں سنا گیا۔
اس کے شہر میں موجود سبزی منڈی ملک کی چند بڑی، گندی ترین اور غلط منصوبہ بند سبزی منڈیوں میں سے ایک تھی۔ منڈی کو صرف دو راستے جاتے تھے اور ان دونوں راستوں پر اس قدر رش ہوتا تھا کہ ٹریفک کو گزرنے اور نکلنے میں کئی کئی گھنٹے لگ جاتے۔ ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے وہاں ہر وقت ایک ہنگامے کی حالت برپا رہتی۔ خاص طور پر صبح فجر اور رات کے اوقات میں جب وہاں ٹرکوں اور ٹرالیوں پر دوسرے شہروں سے پھل اور سبزی آتی اور ان اجناس کے خریدار مختلف دکاندار اور ریڑھیوں والے وہاں آتے۔
منڈی میں نہ صرف ٹریفک کا نظام بہت برا تھا بلکہ گندگی کے لحاظ سے بھی اس کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔
وہاں سے گزرنے والا گندے پانی کا نالہ گلی سڑی سبزیوں اور پھلوں اور ان کے چھلکوں سے ہر وقت بھرا رہتا۔ کوڑے کی مقدار اس حد تک زیادہ ہو جاتی کہ پانی کا بہنا بھی مشکل ہو جاتا، نتیجہ یہ تھا کہ پانی بری طرح متعفن ہو جاتا، منڈی میں کچھ دیر کھڑے رہنا جان جوکھوں کا کام لگتا تھا۔



برسات کے دنوں میں صورت حال اس وقت اور بھی خراب ہو جاتی جب نالے میں یکدم پیچھے سے بہت زیادہ پانی آ جاتا اور وہ پانی گزرنے کے بجائے منڈی میں سیلابی ریلے کی صورت میں بھرتا رہتا، پانی کا یہ کیچڑ نما ریلا کئی کئی ہفتے منڈی میں موجود رہتا اور لوگ اسی حالت میں وہاں کاروبار کرتے رہتے۔ کئی ہفتوں کے بعد یہ پانی اتر بھی جاتا تب بھی زمین کو خشک ہونے میں کئی کئی دن لگتے۔ بعض دفعہ وہاں وبائیں بھی پھوٹ پڑتیں۔ مگر لوگوں کو ان چیزوں کی زیادہ پرواہ نہیں تھی۔
شہر کی انتظامیہ کئی سال پہلے نئی سبزی منڈی کے لیے نہ صرف جگہ مخصوص کر چکی تھی بلکہ بڑے اچھے طریقے سے اس کی پلاننگ کے بعد دکانوں کی تعمیر بھی کی گئی، اس کام میں کروڑوں روپیہ خرچ ہوا لیکن جب انتظامیہ اور بلدیہ نے سبزی منڈی کو نئی جگہ پر منتقل کرنے کی کوشش کی تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔
نئی سبزی منڈی آبادی سے خاصی دور تھی جب کہ موجودہ سبزی منڈی شہر کے تقریباً وسط میں تھی اور شہر کے اندر ہونے کا یہ فائدہ کوئی بھی کھونے کے لیے تیار نہیں تھا۔
منڈی کے آڑھتیوں، بیوپاریوں اور خریداروں نے آسمان کو کچھ اس طرح سر پر اٹھایا کہ انتظامیہ نے منڈی کو عوام کی سہولت کے پیش نظر نئی جگہ پر منتقل کرنے کا کام معطل کر دیا۔ آڑھتیوں اور بیوپاریوں کی دھمکیاں کوئی بھی سیاسی حکومت افورڈ نہیں کر سکتی تھی کیونکہ ہر ایک کو ان کے ووٹوں کی ضرورت تھی اور کوئی رکن اسمبلی یا بلدیہ کا میئر یہ نہیں چاہتا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں ووٹ اس کے ہاتھ سے نکل جائیں۔ اس لیے جتنے شور شرابے سے ”عوام کی سہولت” کے پیش نظر اس منڈی کو منتقل کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیاتھا، اتنی ہی خاموشی کے ساتھ اس منصوبے کو عوام کی سہولت کے لیے ترک کر دیا گیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!