نئی تعمیر شدہ منڈی شہر سے باہر اپنے مکینوں کا انتظار ہی کرتی رہی۔ پھر ہر بار نئی آنے والی انتظامیہ اور بلدیہ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور ہر بار وہ دودھ کے جھاگ کی طرح بیٹھتے رہے۔ بلدیاتی انتخابات میں ہر بار شہریوں سے منڈی کی شہر سے باہر منتقلی کے وعدے پر ووٹ لیے جاتے اور الیکشن جیتنے کے بعد اس وعدے کو پس پشت ڈال دیا جاتا۔ پھر اس کام کا بیڑا رضی محمود اور عمر جہانگیر نے اٹھایا تھا۔ تمام سیاسی دباؤ کو پس پشت ڈالتے ہوئے سبزی منڈی میں کاروبار کرنے والے لوگوں کو ڈیڈ لائن دے دی تھی۔ دونوں پر پیچھے سے پڑنے والا دباؤ اس لیے کارگر ثابت نہیں ہو رہا تھا کیونکہ دونوں ہی بہت بااثر خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی ٹرانسفر کروانا آسان کام نہیں تھا۔
رضی محمود، عمر جہانگیر کے بیج میں سے تھا اور اس کی عمر کے ساتھ اچھی خاصی دوستی تھی۔ ایک ہی ضلع میں اتفاقاً ہونے والی تعیناتی کے دوران دونوں کے درمیان ہر معاملے میں اچھی خاصی کوآرڈی نیشن رہی اور سبزی منڈی کی تبدیلی کا کام اسی مطابقت کا ایک نتیجہ تھا۔
جب کسی قسم کا کوئی دباؤ کام میں نہیں آیا تو آڑھتیوں اور بیوپاریوں نے ہڑتال کی دھمکی دے دی۔ رضی محمود اور عمر جہانگیر نے بڑے اطمینان سے اس ہڑتال کی دھمکی کو نظر انداز کر دیا۔
منڈی کے لوگوں کے احتجاج میں اور شدت آ گئی اور مقررہ تاریخ پر ان کی ہڑتال شروع ہو گئی۔
مقررہ تاریخ پر رضی محمود نے قریبی شہر کی سبزی منڈی میں وہاں کے بااثر لوگوں کے ذریعے پھل اور سبزیاں منگوائیں اور شہر میں کئی جگہوں پر انتظامیہ اور بلدیہ کی زیر نگرانی سستے داموں فراہم کرنا شروع کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ سارے شہر میں اعلان ہوتا رہا کہ اگلے دو ہفتوں میں انتظامیہ اور کن کن جگہوں پر ایسے بازاروں کا انعقاد کرے گی اور ان کے اوقات کیا ہوں گے۔
غیر محدود مدت کے لیے شروع ہونے والی ہڑتال اگلے دن ہی ختم ہو گئی، انہیں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ایسے کسی اقدام کا اندازہ نہیں تھا۔
ہڑتال ختم ہونے کے باوجود سبزی منڈی میں کاروبار کرنے والوں کا احتجاج ختم نہیں ہوا بلکہ اس میں اور شدت آ گئی اور جب مقررہ ڈیڈ لائن پر پولیس منڈی کو خالی کروانے گئی تو آڑھتیوں کی انجمن کے صدر نے انہیں وہ اسٹے آرڈر دکھایا جو وہ کورٹ سے لے چکے تھے۔ عدالت نے ضلعی انتظامیہ کو تب تک سبزی منڈی کو خالی کروانے سے روک دیا تھا جب تک اس مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اور مقدمہ کرنے والوں کو یقین تھا کہ مقدمے کا فیصلہ ہونے میں اتنا وقت ضرور لگ جائے گا کہ عمر جہانگیر اور رضی محمود وہاں سے پوسٹ آؤٹ ہو جاتے اور ان کی جگہ پر آنے والے نئے افسر ضروری نہیں تھا کہ ان جیسے ہی ہوتے، سبزی منڈی کے لوگوں کو یقین تھا کہ ان کا مسئلہ حل ہو چکا تھا۔ اسٹے آرڈر دیکھنے کے بعد ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کی قیادت میں آنے والا پولیس کا دستہ بڑی خاموشی کے ساتھ سبزی منڈی کے لوگوں کے بلندوبانگ فاتحانہ نعروں کی گونج میں کسی قسم کے ردعمل کا اظہار کیے بغیر وہاں سے چلا گیا۔
سارا دن سبزی منڈی میں مٹھائیاں بٹتی رہیں، انتظامیہ کو ایک بار پھر شکست دے دی گئی تھی۔ انہیں شہر سے کوئی نہیں نکال سکتا تھا۔
اگلی رات دو بجے سبزی منڈی کی طرف دوسرے شہر سے آنے والا ٹرک پویس کے قائم کیے گئے اس ناکے پر کھڑا اوپر لدی ہوئی ایک ایک پیٹی اتروا کر پولیس کے ان چار لوگوں کو دکھا رہا تھا جو کرسیوں پر بڑے اطمینان سے بیٹھے تھے۔ اس سڑک پر وہ پہلا ناکہ تھا اور اس ناکہ کے بعد آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر چھ اور ایسے ہی ناکے تھے۔ وہ ٹرک جو عام طور پر رات ڈھائی بجے کے قریب سبزی منڈی پہنچ جاتا تھا، وہ اس دن صبح دس بجے کے قریب سبزی منڈی پہنچا پولیس نے سبزی منڈی کی دونوں بیرونی سڑکوں کو بلاک کرکے اس پر جابجا ناکے لگا دیئے تھے اور وہ دونوں سڑکیں مکمل طور پر بلاک ہو گئی تھیں۔ پولیس والے ایک ایک پیٹی اترواتے پھر چڑھاتے اگلے ناکے پر پھر یہی عمل دہرایا جاتا، اس سے اگلے ناکے پر پھر…انتظامیہ نے شہر میں اعلان کر دیا تھا کہ امن و امان کی بگڑی ہوئی صورت حال کے پیش نظر شہر میں آنے والے تمام ٹرکوں کے سامان کی اچھی طرح چھان بین کی جائے گی اور شہر میں آنے والے زیادہ تر ٹرک سبزی منڈی ہی جاتے تھے۔ نتیجتاً اس سڑک پر ٹرکوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں اور گرمی کے موسم میں بہت سے ٹرکوں میں لدا ہوا پھل اور سبزیاں خراب ہونے لگے۔ دوسرے شہروں سے بھیجے جانے والے پھلوں اور سبزیوں کے سودے ختم ہونے لگے۔
ٹرکوں پر لدے ہوئے پھلوں اور سبزیوں کے خراب ڈھیر کو خریدنے کے لیے سبزی منڈی میں کوئی تیار نہیں تھا اور دوسرے شہروں سے لوگ اپنی اجناس اس طرح ضائع کروانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ پولیس اسٹے آرڈر کی پوری طرح پاس داری کر رہی تھی۔ سبزی منڈی میں کاروبار کرنے والے کسی شخص کو تنگ نہیں کیا گیا تھا البتہ امن و امان کی حالت کو ٹھیک رکھنا ایک ایسا فرض تھا جو پولیس کو ہر صورت پورا کرنا تھا اور یہ کام رضی محمود اور عمر جہانگیر اپنی نگرانی میں کروا رہے تھے۔
چھٹے دن پرانی سبزی منڈی کے لوگ خاموشی سے نئی سبزی منڈی منتقل ہونا شروع ہو گئے، ایک ہفتہ میں یہ منتقلی ختم ہو گئی، ایک ہفتہ کے بعد پولیس نے اس سڑک پر تمام ناکے یہ کہتے ہوئے ختم کر دیئے کہ امن و امان کی صورت حال میں بہت زیادہ بہتری آنے کی وجہ سے اب ان دو سڑکوں پر ناکوں کی ضرورت نہیں رہی۔ پرانی سبزی منڈی سے نئی سبزی منڈی میں منتقلی کا کام جس قدر سہولت سے ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں شہریوں کو جو سکون کا سانس نصیب ہوا تھا۔
اس نے رضی محمود اور عمر جہانگیر کے لیے بھی عام شہریوں کے اندر خاصے اچھے جذبات پیدا کیے تھے لوکل پریس میں شائع ہونے والی تعریفی خبریں ملکی پریس میں بھی آئیں اور پھر کچھ کالم نویسوں کے کالمز کی زینت بھی بنیں۔
بات شاید یہیں تک رہتی تو رضی محمود اور عمر جہانگیر کا ہیرو والا درجہ اسی طرح قائم رہتا اور دوسرے لوگوں کی طرح علیزہ بھی یہی سمجھتی رہتی کہ ان دونوں نے بڑے اچھے طریقے سے ایک مشکل صورت حال کو ہینڈ کیا تھا مگر صالحہ کے آرٹیکل نے اس تمام معاملے پر سے ایک نیا پردہ اٹھاتے ہوئے عمر اور رضی کی ہیرو والی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے انہیں ولن کی حیثیت دے دی تھی۔
سبزی منڈی کی نئی جگہ منتقلی کے بعد رضی محمود اور عمر جہانگیر نے شہر کے وسط میں موجود اس سبزی منڈی کی کروڑوں مالیت کی زمین کو بیچ کر رقم آپس میں تقسیم کر لی تھی اور صالحہ نے اس فراڈ کی تمام تفصیلات کو اپنے آرٹیکل میں شائع کیا تھا۔ اس نے نہ صرف زمین کے نئے مالکان کے ناموں کی تفصیل دی تھی بلکہ یہ بھی بتایا تھا کہ چند کالم نویسوں کو کس طرح روپیہ دے کر اخبارات میں رضی محمود اور عمر جہانگیر کے نام نہاد پروفیشنلزم کی تعریف کرتے ہوئے انہیں مثالی بیورو کریٹ قرار دیا گیا تھا۔ ایسے بیورو کریٹ جن پر اس ملک اور آنے والی نسلوں کو فخر ہوگا…دلچسپ بات یہ تھی کہ پرانی سبزی منڈی کا علاقہ اب شہر کے مصروف ترین کمرشل ایریاز میں شامل ہو گیا تھا اور اسی کمرشل ایریا میں اس شہر سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے کالم نویس کو بھی کچھ زمین عطا کی گئی تھی جو اپنے کالمز میں وقتاً فوقتاً اپنے آبائی شہر کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کی تعریفوں میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتا رہتا تھا۔ صالحہ نے زمین کے اس ٹکڑے کی مالیت کے حوالے سے بھی تحریری ثبوت فراہم کیے تھے۔
صالحہ کے آرٹیکل نے بہت سارے کچے چٹھے کھول کر رکھ دیئے تھے اور اس رات اس آرٹیکل کو پڑھتے ہی علیزہ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ آرٹیکل عمر جہانگیر کے لئے خاصے مسائل کھڑے کر سکتا ہے اور ایسا ہی ہوا تھا اخبار کے دفتر میں اس آرٹیکل کے حوالے سے دھڑا دھڑ فون آ رہے تھے لوگ اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے اور ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو زمین کی اس خرید و فروخت کے حوالے سے مزید معلومات فراہم کرنا چاہتے تھے۔
شام کو وہ گھر آئی تو بہت زیادہ تھکی ہوئی تھی …اپنے اخبار میں شائع ہونے والا وہ آرٹیکل اسے اپنے کندھوں پر ایک بوجھ کی طرح لگ رہا تھا …وہ جانتی تھی وہ آرٹیکل عمر کو بھی خاصا پریشان کر رہا ہو گا اور عمر کی پریشانی کا تصور اس کے لئے بہت نا خوشگوار ثابت ہو رہا تھا۔