وہ ابھی اپنے کمرے میں آئی ہی تھی کہ اس کا موبائل بجنے لگا نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے کال ریسیو کی۔
”ہیلو! علیزہ کیسی ہو؟” دوسری طرف سے ہمیشہ کی طرح جنید نے کہا۔
”بالکل ٹھیک ہوں۔” علیزہ نے اپنے سر کا بوجھل پن جھٹکتے ہوئے کہا۔
”بالکل ٹھیک ہو تو یہ اچھی بات ہے۔ اس کا مطلب ہے میں اگلے پندرہ منٹ کے بعد تمہیں ڈنر کے لئے پک کر سکتا ہوں۔” جنید نے بڑے خوشگوار انداز میں کہا۔
وہ انکار کر دینا چاہتی تھی مگر اس نے ایسا نہیں کیا، وہ اپنے سر سے اس آرٹیکل کو جھٹک دینا چاہتی تھی اور اس وقت جنید کے ساتھ گزارا ہوا کچھ وقت یقیناً اسے یہ موقع فراہم کر دیا۔
”ٹھیک ہے، میں تیار ہو جاتی ہوں، آپ مجھے پک کر لیں۔” اس نے ہامی بھرتے ہوئے کہا۔
فون بند کر کے وہ اپنے کپڑے لے کر باتھ روم میں گھس گئی، اس کو اندازہ تھا۔ جنید واقعی پندرہ منٹ بعد یہاں ہو گا اور وہ اس کو انتظار نہیں کروانا چاہتی تھی۔
پندرہ منٹ بعد جب وہ لاؤنج میں آئی تو جنید واقعی وہاں موجود نانو سے گپ شپ کر رہا تھا۔ وہ دونوں باہر نکل آئے۔
گاڑی میں جنید اس کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف رہا …علیزہ کو ہمیشہ کی طرح اپنی ٹینشن ریلیز ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔
جنید کم گو مگر اچھی گفتگو کرنے والا آدمی تھا اور وہ جتنا اچھا سامع تھا۔ جب بولنے پر آتا تو اس سے بھی زیادہ اچھا گفتگو کرنے والا ثابت ہوتا۔ اسی خوبی کے باعث علیزہ نے جنید کو ذہنی طور پر جلد ہی قبول کر لیا تھا۔
”کہاں چلیں؟” اس نے بات کرتے کرتے اچانک علیزہ سے پوچھا۔
”کہیں بھی …میرے ذہن میں کوئی خاص جگہ نہیں ہے۔” علیزہ نے ڈنر کی جگہ کے انتخاب کو اس پر چھوڑتے ہوئے کہا۔
”فاسٹ فوڈ؟” جنید نے ایک بار پھر اس سے پوچھا۔
”یہ بھی آپ پر منحصر ہے …میں کسی خاص کھانے کا سوچ کر باہر نہیں نکلی۔” علیزہ نے ایک بار پھر پہلے کی طرح اس سے کہا۔
جنید اس کے جواب پر مسکرا کر خاموش ہو گیا۔ کچھ دیر تک وہ خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا پھر اس نے علیزہ سے کہا۔
”میں آج تمہارا نیوز پیپر دیکھ رہا تھا۔”اس نے علیزہ کے اخبار کا نام لیتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے گردن موڑ کر دیکھا۔ اسے احساس ہوا کہ جنید خلاف معمول کچھ سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔
”اس میں، میں نے وہ آرٹیکل پڑھا، تمہاری دوست صالحہ کا آرٹیکل۔”
علیزہ کو بے اختیار سبکی اور ہتک کا احساس ہوا۔ جنید کے منہ سے اس آرٹیکل کا تذکرہ سننا اس کے لئے سب سے زیادہ شرمندگی کا باعث تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی وہ اس کے خاندان کے بارے میں کیا سوچ رہا ہو گا۔
”اس نے تمہارے کزن کے بارے میں لکھا ہے، عمر جہانگیر، تمہارا وہی کزن ہے نا جس سے میں ملا تھا اور یہ آرٹیکل اسی کے بارے میں ہے نا؟” جنید نے جیسے تصدیق چاہی۔
علیزہ نے کچھ خفت کے عالم میں سر ہلا دیا۔
”کافی فضول باتیں لکھی ہیں صالحہ نے۔” جنید نے اس کے سر ہلانے پر تبصرہ کیا۔ علیزہ خاموشی سے سامنے دیکھتی رہی۔
”اس قسم کے بے بنیاد الزامات لگانا جرنلسٹ کا کام نہیں ہوتا۔” جنید کہہ رہا تھا۔
”تمہیں اس آرٹیکل کے شائع ہونے سے پہلے صالحہ نے اس کے بارے میں بتایا ہو گا۔”اچانک اس نے پوچھا۔
”ہاں، اس نے مجھے بتایا تھا۔” علیزہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”تو پھر تمہیں اسے منع کرنا چاہیے تھا کہ وہ تمہاری فیملی کے بارے میں اس طرح کا آرٹیکل نہ لکھے۔” جنید نے سنجیدگی سے کہا۔
علیزہ نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ ”میں کیسے منع کر سکتی تھی؟”
جنید نے اس کی بات پر گردن موڑ کر دیکھا۔ ” وہ تمہاری دوست ہے۔ تم چاہتیں تو اسے منع کر سکتی تھیں۔” اس نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”نہیں، میں اسے منع نہیں کر سکتی تھی۔ ” علیزہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”کیوں…تم ایسا کیوں نہیں کر سکتی تھی؟” جنید نے پوچھا۔