”جنید! آپ چاہتے ہیں، میں صالحہ کو دھمکاؤں ؟” علیزہ کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
”نہیں، میں چاہتا ہوں تم ایک اچھی دوست کی طرح اسے ایسے آرٹیکل تحریر اور شائع کرنے کی صورت میں پیش آنے والے اقدامات اور خطرات کے بارے میں آگاہ کرو۔” جنید نے گاڑی روکتے ہوئے کہا ”مجھے امید تو یہی ہے کہ وہ تمہاری نصیحت پر کان نہیں دھرے گی مگر پھر بھی تم اپنا فرض تو ادا کر دو۔”
”صالحہ کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟” وہ الجھے ہوئے تاثرات کے ساتھ جنید کو دیکھنے لگی۔
”یہ میں کیسے بتا سکتا ہوں۔ میں متعلقہ پارٹی نہیں ہوں یہ تو متعلقہ پارٹی ہی بتا سکتی ہے کہ وہ ایسی صورت حال میں کیا قدم اٹھاتی ہے۔ ”جنید نے لاپروائی سے اپنے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”فرض کریں اگر یہ آرٹیکل آپ کے بارے میں ہوتا تو آپ کا ردعمل کیا ہوتا؟” علیزہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”میرا ردعمل؟” جنید چند لمحے سوچتا رہا۔ ”میں مس صالحہ پرویز کو کورٹ میں لے جاتا، ہتک عزت کے دعویٰ میں” جنید نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا ”نہ صرف اسے بلکہ اس کے اخبار کو بھی۔”
”یہ آپ اس صورت میں کرتے اگر الزامات غلط ہوتے، فرض کریں اگر الزامات صحیح ہوتے تو پھر آپ کیا کرتے؟” جنید علیزہ کا چہرہ دیکھنے لگا۔
”تب تو آپ کبھی بھی اسے کورٹ میں لے جانے کا نہیں سوچ سکتے تھے تب آپ کیا کرتے؟”
”میں نے ایسے ہی کسی اقدام سے بچنے کے لیے تمہیں صالحہ کو محتاط کرنے کے لیے کہا ہے۔” جنید نے پرسکون انداز میں کہا۔
”یعنی آپ بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ الزامات غلط نہیں؟” جنید کچھ لمحوں کے لیے کچھ نہیں بول سکا۔ وہ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
”کیا آپ سے انکل ایاز یا عباس نے مجھ سے یہ سب کچھ کہنے کے لیے کہا ہے؟” علیزہ نے پرسکون آواز میں پوچھا۔
”نہیں۔۔۔” جنید نے گاڑی بند کر دی۔
”پھر آپ اس سارے معاملے میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں؟” اس کے لہجے میں سرد مہری تھی۔
”میں آج آپ کو یہ صاف صاف بتا دوں کہ میرا خاندان صرف میرا خاندان ہے۔ وہ آپ کا خاندان نہیں ہے اور میں یہ پسند نہیں کروں گی کہ آپ میرے خاندان کے بارے میں مجھے کوئی مشورہ دیں یا میرے خاندان کے کسی معاملے کو اتنی تفصیل سے زیر بحث لائیں۔”
جنید ہکا بکا اسے دیکھتا رہا۔
”انکل ایاز کے خاندان سے آپ کے تعلقات کتنے گہرے ہیں یا عباس بھائی سے آپ کی دوستی کی نوعیت کیا ہے، مجھے اس کی پروا نہیں، لیکن میں اپنی فیملی یا اپنے دوستوں کے لیے کسی قسم کے مشورے نہیں چاہتی…نہ آج، نہ آئندہ کبھی…اب آپ مجھے گھر واپس چھوڑ آئیں۔”
”علیزہ !” جنید نے جیسے بے یقینی کے عالم میں کہا۔
”مجھے گھر چھوڑ دیں۔” علیزہ نے جنید کے لہجے پر توجہ دیئے بغیر اسی طرح کہا۔
”اتنا غصہ کس بات پر آرہا ہے تمہیں؟” جنید اب بھی حیران نظر آرہا تھا۔
”مجھے گھر چھوڑ دیں۔” اس نے جنید کے سوال کا جواب دیئے بغیر کہا۔
”میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔” جنید نے اس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔
”آپ یہ سوال مجھ سے پوچھنے کے بجائے اپنے آپ سے پوچھیں۔” علیزہ نے ناراضی سے کہا۔
”کیا تمہاری فیملی میری فیملی نہیں ہے؟” جنید نے اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔